نبذة تعريفية مختصرة عن الكتاب:
كتاب قيّم باللغة الأردية يتحدّث عن أركان الإيمان الستة، وهي: (الإيمان بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، والقدر خيره وشره) بالتوضيح والبيان المعززين بالكتاب والسنة، والمعقول، وبَيَّن أن الإيمان: هو قول باللسان، واعتقاد بالقلب، وعمل بالجوارح، يزيد بالطاعة، وينقص بالمعصية، ثم تطرق الكتاب إلى تحقيق الإيمان، كما تناول أشهر المسائل المتعلقة بكل ركن من أركان الإيمان.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیشِ لفظ
کویت میں بسنے والے اردو دان حضرات کی دینی راہنمائی کیلئے مرکز دعوۃ الجالیات ایک عرصے سے سرگرم ہے ، اس مرکز کے ذمہ داران ، دعاۃ اور منسلک احباب اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کویت میں قرآن وسنت کی سچی اور کھری دعوت روز افزوں ترقی کرے ، اور اس سلسلے میں الحمد للہ متعدد ہفتہ وار دروس جاری ہیں جن میں مرکز کے دعاۃ قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح پر بھر پور توجہ دیتے ہیں ، معروف علماء کرام کی کیسٹیں لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں ، اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف موضوعات پر لٹریچر چھپوا کر مفت تقسیم کیا جاتا ہے ، اور الحمد للہ ان جہود کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہور ہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کوششوں کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین
مرکز کی طرف سے اب تک جو لٹریچر تقسیم کیا گیا ہے اس میں ارکان اسلام میں سے ہر رکن کے بارے میں الگ الگ پمفلٹ بھی تھے ، اورپھر ان سب کو یکجا کرکے ایک ہی رسالے کی شکل میں چھپوادیا گیا ، تاکہ قارئین کو تمام ارکانِ اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات ایک ہی جگہ پر مل جائیں ، اور ارکان ایمان پر کوئی رسالہ اب تک نہیں چھپا تھا ، اور کئی احباب نے اس بات کی طرف مرکز کے ذمہ داران کی توجہ مبذول کرائی ، چنانچہ ان کی اسی رغبت کے پیش نظر تمام ارکانِ ایمان کے بارے میں بنیادی معلومات پر مشتمل یہ رسالہ ترتیب دیا گیا ہے اور اس کی تیاری میں رسالہ ارکانِ ایمان مطبوعہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے کافی استفادہ کیا گیا ہے ۔
ہم اپنے تمام مسلمان بھائیوں اوربہنوں سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ ضرور اس رسالے کا مطالعہ کریں اور اپنے اہل وعیال کو ارکانِ ایمان کے بارے میں بنیادی معلومات سے بہرہ ور کریں ۔
یاد رہے کہ یہ رسالہ([1]) بعض اہل خیر کے خرچہ پر مفت تقسیم کیلئے چھپوایا گیا ہے ہم جہاں ان کیلئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور انہیں دین ودنیا کی خیر وبھلائی نصیب فرمائے ، وہاں ہم اپنے تمام بھائیوں اور اپنی تمام بہنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قرآن وسنت کی نشرواشاعت میں ہمارا ساتھ دیں ، اللہ تعالیٰ سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین
مرکز دعوۃ الجالیات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایمان کی اہمیت
معزز قارئین ! اس رسالے کا آغاز ہم قرآن مجید کی دو آیات مبارکہ سے کرتے ہیں چنانچہ اللہ تعالی ٰ کا فرمان ہے :
(مَنۡ عَمِلَ صَٰلِحٗامِّن ذَكَرٍ أَوۡ أنثَىٰ وَهوَ مؤۡمِن فَلَنحۡيِيَنَّه حَيَوٰةٗ طَيِّبَة وَلَنَجۡزِيَنَّهمۡ أَجۡرَهم بِأَحۡسَنِ مَاكَانواْ يَعۡمَلونَ )٩٧
ترجمہ : ’’جو شخص نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ایمان والا ہو، تو اسے ہم یقیناًبہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے ، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے([2])۔‘‘
اورفرمایا : ( ٱلَّذِينَءَامَنواْ وَعَمِلواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ طوبَىٰ لَهمۡ وَحسۡن مََٔاب ٢٩) ترجمہ : ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ، ان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی ([3])۔ ‘‘
پہلی آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی ٰنے نیک عمل کرنے والے ہر مرد وعورت کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کرنے اور آخرت میں ان کے اعمال کا بہتر بدلہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے ، لیکن اس شرط پر کہ عمل کرنے والا ‘ خواہ مرد ہو یا عورت ‘ ایمان والا ہو…. اس سے معلوم ہوا کہ دنیا وآخرت کی کامرانی وکامیابی کیلئے ایمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔
اور اسی طرح دوسری آیتِ کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو دنیا میں خوشحالی اور آخرت میں عمدہ ٹھکانے کی خوشخبری سنائی ہے … اور یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان کی بنیاد پر ہی دونوں جہانوں کی فلاح نصیب ہو سکتی ہے ۔
اگر ایک انسان ایمان والا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی کرتا ہو اور اسی حالت میں توبہ کرنے سے پہلے اس کی موت آ جائے تو روزِ قیامت اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دے گا اور پھر اس کے ایمان ہی کی بنیاد پر اسے جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کردے گا ۔ جیسا کہ حضرت انس بن مالک ؓ حدیث الشفاعۃ کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
(فَأَقول:أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِق فَأَسْتَأْذِن عَلَى رَبِّي ،فَيؤْذَن لِي، فَأَقوم بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَأَحْمَده بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِر عَلَيْهِ الآنَ يلْهِمنِيهِ اللَّه، ثمَّ أَخِرّ لَه سَاجِدًا، فَيقَال لِي: يَا محَمَّد، ارْفَعْ رَأْسَ ، وَقلْ : يسْمَعْ لَكَ ، وَسَلْ تعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تشَفَّعْ ، فَأَقول: رَبِّ أمَّتِي ، أمَّتِي ، فَيقَال : انْطَلِقْ ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَال حَبَّةٍ مِنْ برَّةٍ أَوْ شَعِيرَةٍ مِنَ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجْه مِنْهَا ، فَأَنْطَلِق ، فَأَفْعَل، ثمَّ أَرْجِع إِلَى رَبِّي ، فَأَحْمَده بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ، ثمَّ أَخِرّ لَه سَاجِدًا ، فَيقَال لِي : يَا محَمَّد ، ارْفَعْ رَأْسَكَ ، وَقلْ : يسْمَعْ لَكَ ، وَسَلْ تعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تشَفَّعْ ، فَأَقول : أمَّتِي ، أمَّتِي ، فَيقَال لِي: انْطَلِقْ ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَال حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجْه مِنْهَا ، فَأَنْطَلِق ، فَأَفْعَل، ثمَّ أَعود إِلَى رَبِّي ، فَأَحْمَده بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ، ثمَّ أَخِرّ لَه سَاجِدًا ، فَيقَال لِي : يَا محَمَّد ، ارْفَعْ رَأْسَكَ ، وَقلْ : يسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تشَفَّعْ ، فَأَقول : يَا رَبِّ ، أمَّتِي ، أمَّتِي ، فَيقَال لِي : انْطَلِقْ ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ ، أَدْنَى ، أَدْنَى ، أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجْه مِنَ النَّارِ ، فَأَنْطَلِق ، فَأَفْعَل …)
ترجمہ : ’’ میں کہوں گا : میں اس ( شفاعت ) کیلئے تیار ہوں ، چنانچہ میں جاؤں گا ، اور اپنے رب سے اجازت طلب کرونگا ، اور جب مجھے اجازت دی جائے گی تو میں اس کی بارگاہ میں کھڑا ہو جاؤنگا اور اس کی وہ تعریفیں کرونگا جو اب نہیں کر سکتا ، وہ صرف اسی وقت اللہ تعالی ٰمجھے الہام کرے گا ، پھر میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا ، پھر مجھے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، اور بات کیجئے ، آپ کی بات سنی جائے گی ، اور سوال کیجئے ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ، اور شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت کی بخشش فرما ، اور میری امت کو جہنم سے بچا۔
کہا جائے گا : آپ جائیے اور جس شخص کے دل میں گندم یا جَوکے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیجئے !
چنانچہ میں جاؤں گا اور اسی طرح کرونگا جیسا کہ مجھے حکم دیا جائے گا ۔ پھر میں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر آؤں گا ، اور وہی تعریفیں پھر عرض کرونگا، اور اس کے بعد سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔پھر مجھے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، اور بات کیجئے ، آپ کی بات سنی جائے گی ، اور سوال کیجئے ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ، اور شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت کی بخشش فرما ، اور میری امت کو جہنم سے بچا۔
کہا جائے گا : آپ جائیے اور جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیجئے !
چنانچہ میں جاؤں گا اور اسی طرح کرونگا جیسا کہ مجھے حکم دیا جائے گا ۔ پھر میں اپنے رب کے پاس واپس لوٹ کر آؤں گا ، اور وہی تعریفیں پھر عرض کرونگا، اور اس کے بعد سجدہ ریز ہو جاؤں گا ۔پھر مجھے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے ، اور بات کیجئے ، آپ کی بات سنی جائے گی ، اور سوال کیجئے ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ، اور شفاعت کیجئے ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت کی بخشش فرما ، اور میری امت کو جہنم سے بچا۔
کہا جائے گا : آپ جائیے اور جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانے سے بھی کم ، اور اس سے بھی کم ، اور اس سے بھی کم ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیجئے ! چنانچہ میں جاؤں گا اور اسی طرح کرونگا جیسا کہ مجھے حکم دیا جائے گا. ….الخ ([4])۔ ‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ روزِ قیامت ایمان ہی کی بنیاد پر انسان کی نجات ممکن ہو سکے گی ، اور کسی انسان کی نجات کیلئے ایمان اس قدر اہم ہے کہ اگر یہ رائی کے دانے سے بھی کم ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا ۔اور جب ایمان دنیا وآخرت میں انسان کی کامیابی اور نجات کیلئے اتنا اہم ہے تو اس کی تعریف کا جاننا اور اس کے ارکان کو معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔
ایمان کا مفہوم
ایمان تین چیزوں کا نام ہے :
قول باللسان ، واعتقاد بالجنان ، وعمل بالأرکان
زبان کا اقرار ۔ دل کی تصدیق ۔ اور اعضاء کا عمل یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرار کرنا ، اور دل سے ان کی تصدیق کرنا ، مثلا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور اس کے اسماء وصفات میں اس کی وحدانیت کا زبان سے اقرار کرنا اور دل میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اکیلا ہی کائنات کا خالق ومالک اور عبادت کے لائق ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور اسی طرح وہ اپنے اسماء وصفات میں بھی یکتا اور متفرد ہے۔
نیز ایمان کی تعریف میں دل کے یہ اعمال بھی شامل ہیں: اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا، اسی سے ڈرنا، اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی پر توکل کرنا وغیرہ۔
اور چونکہ ایمان کے ضمن میں اعمال بھی شامل ہیں اس لئے عمل صالح کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(إِنَّمَا ٱلۡمؤۡمِنونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذكِرَ ٱللَّه وَجِلَتۡ قلوبهمۡ وَإِذَا تلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰته زَادَتۡهمۡ إِيمَٰنٗا وَعَلَىٰ رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلونَ ٢ٱلَّذِينَ يقِيمونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقۡنَٰهمۡ ينفِقونَ ٣ أوْلَٰٓئِكَ هم ٱلۡمؤۡمِنونَ حَقّٗاۚ لَّهمۡ دَرَجَٰتٌ عِندَ رَبِّهِمۡ وَمَغۡفِرَة وَرِزۡق كَرِيم )٤
ترجمہ : ’’سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، اور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ، اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ، (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں ، اور ہم نے جو مال ودولت انہیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ، یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ([5]) ۔ ‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سچے مومنوں کی پانچ صفات ذکر فرمائی ہیں ، ان میں سے پہلی تین صفات کا تعلق دل سے ، اور دوسری دو صفات کا تعلق اعضاء سے ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی اور سچے ایمان کے حصول کیلئے اعضاء کا عمل ضروری ہے ، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عمل صالح سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایمان اور عمل
ایمان صرف زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق ہی کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیاتِ کریمہ میں ان لوگوں کو جنت کی خوشخبریاں سنائی ہیں جو ایمان والے اورعمل صالح کرنے والے ہوں ، جیسا کہ اس کا فرمان ہے :
(وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ وَعَمِلواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أَنَّ لَهمۡ جَنَّٰت تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرۖ كلَّمَا رزِقواْ مِنۡهَا مِن ثَمَرَة رِّزۡقا قَالواْ هَٰذَا ٱلَّذِي رزِقۡنَا مِن قَبۡلۖ وَأتواْ بِهِۦ متَشَٰبِهٗاۖ وَلَهمۡ فِيهَآ أَزۡوَٰج مّطَهَّرَةۖ وَهمۡ فِيهَا خَٰلِدونَ)
ترجمہ : ’’ (اے پیغمبر ) جو لوگ ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں انہیں خوشخبری دے دیجئے کہ ان کیلئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، جب بھی انہیں کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے : یہ تو وہ پھل ہیں جو ہمیں اس سے پہلے ( دنیا میں ) دئیے جا چکے ہیں ، کیونکہ جو پھل انہیں دیا جائے گا وہ شکل وصورت میں دنیا کے پھل سے ملتا جلتا ہو گا ، نیز ان ایمان والوں کیلئے وہاں پاک وصاف بیویاں ( بھی ) ہونگی ، اور وہ ان باغات میں ہمیشہ قیام پذیر رہیں گے([6]) ۔ ‘‘
اور اسی طرح فرمایا :
(إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ وَعَمِلواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَأَقَامواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَواْ ٱلزَّكَوٰةَ لَهمۡ أَجۡرهمۡ عِندَ رَبِّهِمۡ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا همۡ يَحۡزَنونَ )٢٧٧
ترجمہ : ’’ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، نماز قائم کرتے رہے ، اور زکاۃ ادا کرتے رہے ، تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ، انہیں نہ کوئی خوف ہو گا ، اور نہ وہ غمگین ہونگے ([7]) ۔‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر تمام انسانوں کو خسارہ پانے والا قرار دیا ہے ، سوائے ان کے جو ایمان والے ہوں اور عمل صالح کرتے ہو ں، فرمان الٰہی ہے :
(وَٱلۡعَصۡرِ ١ إِنَّ ٱلۡإِنسَٰنَ لَفِي خسۡرٍ ٢ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ وَعَمِلواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَتَوَاصَوۡاْ بِٱلۡحَقِّ وَتَوَاصَوۡاْ بِٱلصَّبۡرِ ٣ )
ترجمہ : ’’ زمانے کی قسم ! بلا شبہ انسان خسارے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ، اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ([8]) ۔ ‘‘
اور سورۃ التین میں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک نہیں ‘ کئی قسمیں اٹھا کرفرمایا کہ تمام انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ادنی ترین مخلوق کے درجے میں ہیں ، سوائے ان کے جو ایمان والے ہوں اور عمل صالح کرتے ہوں ، فرمایا :
(وَٱلتِّينِ وَٱلزَّيۡتونِ ١ وَطورِ سِينِينَ ٢ وَهَٰذَا ٱلۡبَلَدِ ٱلۡأَمِينِ ٣لَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ فِيٓ أَحۡسَنِ تَقۡوِيم ٤ ثمَّ رَدَدۡنَٰه أَسۡفَلَ سَٰفِلِينَ ٥ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ وَعَمِلواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَلَهمۡ أَجۡرٌ غَيۡر مَمۡنون ٦ فَمَا يكَذِّبكَ بَعۡد بِٱلدِّينِ ٧ أَلَيۡسَ ٱللَّه بِأَحۡكَمِ ٱلۡحَٰكِمِينَ ٨)
ترجمہ : ’’ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ، اور طورِ سینا کی ، اور اس امن والے شہر (مکہ ) کی ، کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے ، پھر ہم نے اسے ادنی ترین مخلوق کے درجہ میں لوٹا دیا ، بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ، ان کیلئے ایسا اجر ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگا([9])۔‘‘
ان تمام آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ زبان کے اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ ساتھ اعضاء کے اعمال بھی ایمان میں شامل ہیں ۔
اوامر پر عمل
اعضاء کے اعمال میں ایک تو وہ اعمال ہیں جن کا تعلق امتثالِ اوامر سے ہے ، یعنی ان احکامات پر عمل کر نا جو اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول ﷺنے صادر فرمائے ، مثلا نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ ، جہاد … وغیرہ
اللہ تعالی ٰکا فرمان ہے :
(قَدۡ أَفۡلَحَ ٱلۡمؤۡمِنونَ ١ ٱلَّذِينَ همۡ فِي صَلَاتِهِمۡ خَٰشِعونَ ٢ وَٱلَّذِينَ همۡ عَنِ ٱللَّغۡوِ معۡرِضونَ ٣ وَٱلَّذِينَ همۡ لِلزَّكَوٰةِ فَٰعِلونَ ٤ وَٱلَّذِينَ همۡ لِفروجِهِمۡ حَٰفِظونَ ٥ إِلَّا عَلَىٰٓ أَزۡوَٰجِهِمۡ أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنهمۡ فَإِنَّهمۡ غَيۡر مَلومِينَ ٦فَمَنِ ٱبۡتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٰلِكَ فَأوْلَٰٓئِكَ هم ٱلۡعَادونَ ٧ وَٱلَّذِينَ همۡ لِأَمَٰنَٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رَٰعونَ ٨ وَٱلَّذِينَ همۡ عَلَىٰ صَلَوَٰتِهِمۡ يحَافِظونَ ٩ أوْلَٰٓئِكَ هم ٱلۡوَٰرِثونَ ١٠ ٱلَّذِينَ يَرِثونَ ٱلۡفِرۡدَوۡسَ همۡ فِيهَا خَٰلِدونَ ١١)
ترجمہ : ’’ایمان والے لوگ کامیاب ہو گئے ، جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے ہیں ، اور جو بے ہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں ، اور جو زکاۃ ادا کرتے رہتے ہیں ، اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں اور کنیزوں کے جو ان کے قبضہ میں ہوں ، کیونکہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی ملامت نہیں ، البتہ ان کے سوا جو کوئی اور ذریعہ تلاش کرے تو ایسے ہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں ، اور جو اپنی امانتوں اور عہدو پیمان کا پاس رکھتے ہیں ، اور اپنی نمازوں پر محافظت کرتے ہیں ، یہی لوگ ایسے ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے ، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ([10]) ۔ ‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جو صفات ذکر فرمائی ہیں ان میں سے بعض کا تعلق دل سے اور بعض کا تعلق اعضاء سے ہے ، اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اعضاء کے اعمال ایمان میں شامل ہیں ۔
نیز فرمایا : (إِنَّمَا ٱلۡمؤۡمِنونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ بِٱللَّهِ وَرَسولِهِۦ ثمَّ لَمۡ يَرۡتَابواْ وَجَٰهَدواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ وَأَنفسِهِمۡ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِۚ أوْلَٰٓئِكَ هم ٱلصَّٰدِقونَ١٥ )
ترجمہ : ’’( حقیقی ) مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر شک میں نہیں پڑے ، اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، یہی سچے ( مومن ) ہیں([11])۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سچے مومن قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اپنی جانوں اور اپنے اموال کے ساتھ جہاد بھی کرتے ہیں ، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ جہاد بھی ایمان میں شامل ہے ۔
اورحضرت ابو ہریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(مَنْ كَانَ يؤْمِن بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ،فَلْيَقلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمتْ،وَمَنْ كَانَ يؤْمِن بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ،فَلْيكْرِمْ جَارَه، وَمَنْ كَانَ يؤْمِن بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيكْرِمْ ضَيْفَه)
ترجمہ : ’’ جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کی بات ہی کرے ، ورنہ خاموش رہے ، اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ، اور جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے([12])۔ ‘‘
اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خیر کی بات کرنا ، پڑوسی کے حقوق ادا کرنا اور مہمان نوازی کرنا … یہ سارے اعمال ایمان میں شامل ہیں۔
نواہی سے اجتناب
اعضاء کے اعمال میں امتثالِ اوامر کے ساتھ ساتھ اجتنابِ نواہی بھی شامل ہے ، یعنی ان اعمال سے بچنا جن سے اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول ﷺنے منع کیا ہے ، اور نواہی میں سب سے پہلے شرک سے منع کیا گیا ہے۔
شرک سے اجتناب
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ وَلَمۡ يَلۡبِسوٓاْ إِيمَٰنَهم بِظلۡمٍ أوْلَٰٓئِكَ لَهم ٱلۡأَمۡن وَهم مّهۡتَدونَ )٨٢ ترجمہ : ’’جو لوگ ایمان لائے ، پھر اپنے ایمان کو ظلم ( شرک ) سے آلودہ نہیں کیا ، انہی کیلئے امن وسلامتی ہے ، اور یہی لوگ راہِ راست پر ہیں([13])۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (ٱلَّذِينَ ءَامَنواْ وَلَمۡ يَلۡبِسوٓاْ إِيمَٰنَهم بِظلۡمٍ أوْلَٰٓئِكَ لَهم ٱلۡأَمۡن وَهم مّهۡتَدونَ ) تو یہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر بہت گراں گذری ، چنانچہ انہوں نے کہا : ہم میں سے کون ہے جس نے (گناہ اور معصیت کے ذریعے ) اپنی جان پر ظلم نہیں کیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(لَيْسَ هوَ كَمَا تَظنّونَ،إِنَّمَا هوَ كَمَا قَالَ لقْمَان لِابْنِهِ:يَا بنَيَّ لا تشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظلْمٌ عَظِيمٌ)
ترجمہ : ’’ اس سے مراد وہ نہیں جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو ، بلکہ اس سے مراد ( شرک ہے ) جیسا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا : اے میرے پیارے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ([14])۔ ‘‘
معاصی سے اجتناب
اسی طرح معاصی ( اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں ) سے اجتناب کرنا بھی ایمان میں شامل ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:(لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهوَ مؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِق السَّارِق حِينَ يَسْرِق وَهوَ مؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَب الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبها وَهوَ مؤْمِنٌ)
ترجمہ : ’’ کوئی زانی اس حالت میں زنا نہیں کر سکتا کہ وہ مومن ہو، اور کوئی چور اس حالت میں چوری نہیں کر سکتا کہ وہ ایمان والا ہو ، اور کوئی شرابی اس حالت میں شراب نوشی نہیں کر سکتا کہ وہ مومن ہو([15]) ۔ ‘‘
ایمان کے شعبے
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
(الْإِيمَان بِضْعٌ وَسَبْعونَ-أَوْبِضْعٌ وَسِتّونَ-شعْبَةً فَأَفْضَلهَا قَوْل: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه ،وَأَدْنَاهَا إِمَاطَة الْأَذَى عَنْ الطَّرِيقِ ، وَالْحَيَاء شعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ )
ترجمہ’’ایمان کے ستر( یا ساٹھ ) سے زیادہ شعبے ہیں ، سب سے افضل شعبہ ( لا إلہ إلا اللہ ) کہنا ہے ، اور سب سے کم ترشعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا ہے([16]) ۔ ‘‘
ارکانِ ایمان
ارکانِ ایمان چھ ہیں:
*اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا *اس کے فرشتوں پرایمان لانا *اس کی کتابوں پرایمان لانا *اس کے رسولوں پر ایمان لانا *قیامت کے دن پرایمان لانا *اور اچھی اوربری تقدیر پرایمان لانا
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّۧنَ)… ١٧٧
ترجمہ : ’’در حقیقت نیکی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، اور قیامت کے دن پر، اور فرشتوں پر، اور کتابوں پر، اور تمام نبیوں پر([17]) ‘‘۔
اور فرمایا: (ءَامَنَ ٱلرَّسول بِمَآ أنزِلَ إِلَيۡهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلۡمؤۡمِنونَۚ كلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكتبِهِۦ وَرسلِهِۦ لَا نفَرِّق بَيۡنَ أَحَد مِّن رّسلِهِۦۚ وَقَالواْ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۖ غفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيۡكَ ٱلۡمَصِير )
ترجمہ : ’’رسول(ﷺ) ایمان لائے اس چیز پر جو ان کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری ،اور مؤمن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں کے درمیان ہم تفریق نہیں کرتے، اور کہتے ہیں کہ اے رب! ہم نے تیرا ارشاد سن لیا اور مان لیا، اے ہمارے رب! ہمیں تیری بخشش چاہئے اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے([18]) ‘‘۔
اور فرمایا: (إِنَّا كلَّ شَيۡءٍ خَلَقۡنَٰه بِقَدَر )
ترجمہ : ’’بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا کیا ہے ([19])۔‘‘
اور نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
(اَلْإِيمَان:أَنْ تؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكتبِهِ وَرسلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ) ترجمہ : ’’ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں، اور اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اچھی وبری تقدیر پر([20])۔‘‘
پہلا رکن:اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا
ایمان باللہ تین چیزوں پر اعتقاد رکھنے کا نام ہے:
أ۔ اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ اس کائنات کا رب ایک ہی ہے، اوروہ اکیلا ہی اس کا خالق ومالک ہے، وہی اس کے تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے، اور وہی اس کائنات کے معاملات میں تصرّف کرنے والا ہے، روزی دینے والا وہی ہے ، زندہ کرنے والا وہی ہے، مارنے والا وہی ہے، اور وہی نفع ونقصان کا مالک ہے اس کے سوااور کوئی رب(پروردگار)نہیں، وہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے، اور جس چیز کا ارادہ کر لے اسے کہتا ہے : ہو جا ، تو وہ ہو جاتی ہے ،جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ذلیل کر تا ہے، اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا وہی ہے، وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے، وہ دوسروں سے بے پرواہ ہے، ہر قسم کا حکم اسی کیلئے ہے، ہر قسم کی بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے، اس کے کاموں میں اس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی غلبہ پانے والا ہے، بلکہ تمام مخلوقات فرشتے اور جن وانس سب اسی کے غلام اور بندے ہیں، یہ سب اس کی بادشاہت، طاقت اور اس کے ارادے سے باہر نہیں نکل سکتے، وہ ایک پاک ذات ہے۔
یہ تمام خصوصیات صرف اسی کا حق ہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ان چیزوں کا اس کے سوا اور کوئی حق دار نہیں، ان چیزوں کی نسبت کسی اور کی طرف کرنا ، یا ان میں سے کسی چیز کا اثبات اس کے سوا کسی اور کیلئے کرنا قطعاً جائز نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَٰٓأَيّهَا ٱلنَّاس ٱعۡبدواْ رَبَّكم ٱلَّذِي خَلَقَكمۡ وَٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكمۡ لَعَلَّكمۡ تَتَّقونَ ٢١ ٱلَّذِي جَعَلَ لَكم ٱلۡأَرۡضَ فِرَٰشا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءٗ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَخۡرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزۡقا لَّكمۡۖ )
ترجمہ :’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔ وہ ذات جس نے زمین کوتمہارے لئے بچھونااور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کئے جو تمہارے لئے روزی ہیں([21])۔‘‘
اور فرمایا: (قلِ ٱللَّهمَّ مَٰلِكَ ٱلۡملۡكِ تؤۡتِي ٱلۡملۡكَ مَن تَشَآء وَتَنزِع ٱلۡملۡكَ مِمَّن تَشَآء وَتعِزّ مَن تَشَآء وَتذِلّ مَن تَشَآءۖ بِيَدِكَ ٱلۡخَيۡرۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كلِّ شَيۡء قَدِير )٢٦
ترجمہ : ’’آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام بادشاہت کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے، اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ([22])۔‘‘
اور فرمایا: (وَمَا مِن دَآبَّة فِي ٱلۡأَرۡضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزۡقهَا وَيَعۡلَم مسۡتَقَرَّهَا وَمسۡتَوۡدَعَهَاۚ كلّ فِي كِتَٰب مّبِين )٦
ترجمہ : ’’زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے ([23])۔‘‘
اور فرمایا : (أَلَا لَه ٱلۡخَلۡق وَٱلۡأَمۡرۗ تَبَارَكَ ٱللَّه رَبّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ٥٤)
ترجمہ : ’’یاد رکھو! اللہ ہی کیلئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، با برکت ہے وہ اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ([24])۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بے شمار دلائل ہیں، اورجو شخص بھی ان میں غور وفکر کرے گا اس کے علم میں پختگی حاصل ہوگی اور اس کا یقین بڑھ جائے گا کہ باری تعالیٰ اپنی ربوبیت والوہیت میں یکتا ولاثانی ہے ، اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
ان دلائل میں سے چند ایک کو بطور مثال ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔کائنات کی تخلیق اور اس کا عجیب وغریب نظم ونسق اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے ، اورجو آدمی بھی غور وفکر اور سوچ وبچار کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔
یہ زمین و آسمان ، سورج اورچاند، حیوانات ، نباتات وجمادات، اورلیل ونہار کا بڑا ہی دقیق نظام …. یہ سب چیزیں دلالت کرتی ہیں کہ وہ اکیلا ہی ان کا خالق ومالک اورعبادت کا مستحق ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَجَعَلۡنَا فِي ٱلۡأَرۡضِ رَوَٰسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمۡ وَجَعَلۡنَا فِيهَا فِجَاجٗا سبلٗا لَّعَلَّهمۡ يَهۡتَدونَ ٣١ وَجَعَلۡنَا ٱلسَّمَآءَ سَقۡفٗا مَّحۡفوظٗاۖ وَهمۡ عَنۡ ءَايَٰتِهَا معۡرِضونَ ٣٢ وَهوَ ٱلَّذِي خَلَقَ ٱلَّيۡلَ وَٱلنَّهَارَ وَٱلشَّمۡسَ وَٱلۡقَمَرَۖ كلّ فِي فَلَك يَسۡبَحونَ )٣٣
ترجمہ : ’’اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنادئیے تاکہ وہ انہیں لے کر ہچکولے نہ کھائے، اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ وہ راستہ معلوم کرلیں،اورآسمان کو محفوظ چھت بھی ہم نے ہی بنایا ہے لیکن لوگ اس کی قدرت کی نشانیوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے، سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں([25])۔‘‘
۲۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت ووحدانیت کی متعدد نشانیاں ذکرکرتے ہوئے فرمایا: (وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦٓ أَنۡ خَلَقَكم مِّن ترَاب ثمَّ إِذَآ أَنتم بَشَر تَنتَشِرونَ ٢٠ وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦٓ أَنۡ خَلَقَ لَكم مِّنۡ أَنفسِكمۡ أَزۡوَٰجٗا لِّتَسۡكنوٓاْ إِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكم مَّوَدَّةٗ وَرَحۡمَةًۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰت لِّقَوۡم يَتَفَكَّرونَ ٢١ وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦخَلۡق ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰف أَلۡسِنَتِكمۡ وَأَلۡوَٰنِكمۡۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰت لِّلۡعَٰلِمِينَ ٢٢ وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦ مَنَامكم بِٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱبۡتِغَآؤكم مِّن فَضۡلِهِۦٓۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰت لِّقَوۡم يَسۡمَعونَ ٢٣ وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦ يرِيكم ٱلۡبَرۡقَ خَوۡفٗا وَطَمَعٗا وَينَزِّل مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَيحۡيِۦ بِهِ ٱلۡأَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِهَآۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَٰت لِّقَوۡم يَعۡقِلونَ ٢٤ وَمِنۡ ءَايَٰتِهِۦٓ أَن تَقومَ ٱلسَّمَآء وَٱلۡأَرۡض بِأَمۡرِهِۦۚ ثمَّ إِذَا دَعَاكمۡ دَعۡوَةٗ مِّنَ ٱلۡأَرۡضِ إِذَآ أَنتمۡ تَخۡرجونَ ٢٥)
ترجمہ : ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر اب تم انسان بن کر ہر جگہ پھیل رہے ہو ۔اور ایک یہ کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کر سکو ، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی ، اس میں غور وفکر کرنے والوں کیلئے کئی نشانیاں ہیں ۔ اور ایک یہ کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اور تمہاری زبانیں اور تمہارے رنگ مختلف بنا دئیے ، دانشمندوں کے لئے اس میں بھی یقیناًکئی نشانیاں ہیں۔ نیز تمہارا رات اور دن کو سونا اور اس کا فضل تلاش کرنا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ، جو لوگ غور سے سنتے ہیں ان کیلئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ اور ایک یہ کہ وہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے جس سے تم ڈرتے بھی ہو اور امید بھی رکھتے ہو ، اور آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے ، سمجھنے والوں کیلئے اس میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ زمین وآسمان اسی کے حکم سے (بلا ستون ) قائم ہیں ، پھر جب وہ تمہیں ایک ہی دفعہ زمین میں سے پکارے گا تو تم زمین سے نکل کھڑے ہو گے ([26]) ۔ ‘‘
۳۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی جانوروں کے پیٹ سے نکلنے والا صاف ، سفید ، خوش رنگ ، پاکیزہ ، مزیدار اور خالص دودھ بھی ہے ، جو محض ایک مشروب ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی نشو ونما کیلئے مکمل غذا کا کام دیتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی ٰکا فرمان ہے : (وَإِنَّ لَكمۡ فِي ٱلۡأَنۡعَٰمِ لَعِبۡرَةٗ نّسۡقِيكم مِّمَّا فِي بطونِهِۦ مِنۢ بَيۡنِ فَرۡث وَدَم لَّبَنًا خَالِصا سَآئِغا لِّلشَّٰرِبِينَ)
ترجمہ : ’’ اور تمہارے لئے چوپایوں میں بھی نشانِ عبرت موجود ہے ، ان کے پیٹوں میں غذا کا فضلہ اور خون موجود ہوتا ہے ، تو ان دونوں چیزوں کے درمیان سے ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کیلئے خوشگوار ہوتا ہے([27]) ۔ ‘‘
۴۔ اسی طرح قدرتِ الٰہی کی ایک بڑی نشانی شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلنے والا لذیذ مشروب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے شفا رکھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَأَوۡحَىٰ رَبّكَ إِلَى ٱلنَّحۡلِ أَنِ ٱتَّخِذِي مِنَ ٱلۡجِبَالِ بيوتٗا وَمِنَ ٱلشَّجَرِ وَمِمَّا يَعۡرِشونَ ٦٨ ثمَّ كلِي مِن كلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ فَٱسۡلكِي سبلَ رَبِّكِ ذللٗاۚ يَخۡرج مِنۢ بطونِهَا شَرَاب مّخۡتَلِفٌ أَلۡوَٰنه فِيهِ شِفَآء لِّلنَّاسِۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَأٓيَةٗ لِّقَوۡم يَتَفَكَّرونَ)
ترجمہ : ’’ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور ( انگور وغیرہ کی ) بیلوں میں اپنا گھر ( چھتا ) بنا ، پھر ہر قسم کے پھل سے اس کا رس چوس ، اور اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی رہ ، ان مکھیوں کے پیٹ سے مختلف رنگوں کا مشروب (شہد) نکلتا ہے جس میں لوگوں کیلئے شفا ہے ، یقیناًاس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کیلئے جو غور وفکر کرتے ہیں ([28]) ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کی مکھی اور اس کے پیٹ سے نکلنے والے مشروب میں قدرتِ الٰہی کی کئی نشانیاں موجود ہیں :
(۱) شہد کی مکھی کی طرف اللہ تعالیٰ کی فطری وحی کے نتیجے میں وہ اپنے لئے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ کسی ماہر انجینئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے ، اس چھتے میں خانے ہوتے ہیں اور انہی خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں ،اور بیرونی خانوں پر پہر ہ دار مکھیاں پہرہ دیتی ہیں جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔
(۲) ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ملکہ ہوتی ہے ، اور سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں ، اور وہ جب رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں تو ان میں ایسا نظم وضبط پایا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
(۳) مکھیاں تلاشِ معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں ، پھولوں اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں ، پھر یہی رس اپنے چھتہ کے خانوں میں لا کر ذخیرہ کر تی رہتی ہیں ، گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ، پیہم آمد ورفت ، ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا ، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے رہنا …یہ سب راہیں اللہ تعالیٰ نے مکھی کیلئے اس طرح ہموار کردی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ۔
(۴) شہد مختلف رنگوں میں ہوتا ہے ، اور اس کے متعدد خواص ہیں ، سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ بہت سی بیماریوں کیلئے شفا کا حکم رکھتا ہے ، اور دوسری خاصیت یہ ہے کہ جو اشیاء شہد میں رکھی جائیں وہ بڑی مدت تک اس میں برقرار وبحال رہتی ہیں ، اور اگر ادویہ ڈالی جائیں تو ان کا اثر حتی کہ ان کی خوشبو بھی طویل عرصہ تک برقرار رہتی ہے۔
(۵) اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی بذات خود ایک زہریلا جانور ہے ، انسان کو ڈس جائے تو اس کی جلد متورم اور اس میں سوزش پیدا ہوجاتی ہے ، اور ایسے زہریلے جانور کے اندر سے نکلا ہوا شہد انسان کی اکثر بیماریوں کیلئے باعثِ شفا ہے ، نیز اس کیلئے ایک شیریں اور لذیذ غذا کا کام بھی دیتا ہے۔ [ تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒ ]
ب۔ایمان باللہ کا دوسرا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے، وہ اکیلا ہی تمام قسم کی ظاہری وباطنی عبادات کا مستحق ہے، اور عبادات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔
اور اسی پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو مبعوث فرمایا ۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: و(َلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِي كلِّ أمَّة رَّسولًا أَنِ ٱعۡبدواْ ٱللَّهَ وَٱجۡتَنِبواْ ٱلطَّٰغوتَۖ)
ترجمہ : ’’اور یقیناہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس عبادت سے راضی ہو وہ طاغوت ہے) سے بچو ([29])۔‘‘
اور ہر رسول نے اپنی قوم سے یہی فرمایا: (ٱعۡبدواْ ٱللَّهَ مَا لَكم مِّنۡ إِلَٰهٍ غَيۡرهٓ )٥٩ ترجمہ : ’’تم ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں([30])۔‘‘
اور باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ( وَمَآ أمِروٓاْ إِلَّا لِيَعۡبدواْ ٱللَّهَ مخۡلِصِينَ لَه ٱلدِّينَ حنَفَآءَ)٥ ترجمہ :’’اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ یکسو ہو کراللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص رکھتے ہوئے ([31])۔‘‘
اورحدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ، آپ نے حضرت معاذ ؓسے فرمایا: أَتَدْرِي مَا حَقّ اَللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ، وَمَا حَقّ الْعِبَادِ عَلَى اَللَّهِ؟ قلْت اَللَّه وَرَسوله أَعْلَم، قَالَ حَقّ اَللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبدوه، وَلا يشْرِكوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقّ الْعِبَادِ عَلَى اَللَّهِ أَنْ لا يعَذِّبَ مَنْ لا يشْرِك بِهِ شَيْئًا)
ترجمہ : ’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ 1نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر حق یہ ہے کہ وہ ایسے شخص کو عذاب میں مبتلا نہ کرے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ([32]) ۔‘‘
لہذا تمام عبادات ( مثلا دعا ، نذر ونیاز ، توکل ، ذبح وغیرہ ) صرف اللہ تعالی ٰ کیلئے بجا لائی جائیں ، اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں ، اسی کو حاجت روا ، مشکل کشا ، بگڑی بنانے والا ، داتا ، اور نفع ونقصان کا مالک سمجھا جائے ، کیونکہ وہی معبودِ برحق ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ هوَ ٱلۡحَقّ وَأَنَّ مَا يَدۡعونَ مِن دونِهِۦ هوَ ٱلۡبَٰطِل وَأَنَّ ٱللَّهَ هوَ ٱلۡعَلِيّ ٱلۡكَبِير ٦٢)
ترجمہ :’’یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جس کو بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور بے شک اللہ ہی بلندی والا اور کبریائی والا ہے ([33]) ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(قلۡ إِنَّ صَلَاتِي وَنسكِي وَمَحۡيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ١٦٢ لَا شَرِيكَ لَهۖ وَبِذَٰلِكَ أمِرۡت وَأَنَا۠ أَوَّل ٱلۡمسۡلِمِينَ )
ترجمہ : ’’ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میری نماز ، میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کیلئے ہے ، جس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے ، اور میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوں ([34]) ۔ ‘‘
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
(إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعوكَ بِشَيْءٍ ، لَمْ يَنْفَعوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَه اللَّه لَكَ، وَإِنِ اجْتَمَعوا عَلَى أَنْ يَضرّوكَ بِشَيْءٍ ، لَمْ يَضرّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَه اللَّه عَلَيْكَ)
ترجمہ : ’’ تم جب بھی مانگنا چاہو ، توصرف اللہ تعالیٰ سے مانگو ، اور تمہیں جب بھی مدد کی ضرورت ہو توصرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو ، اور اس بات پر اچھی طرح سے یقین کر لو کہ اگر تمام لوگ مل کر تمھیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے ، سوائے اس نفع کے جواللہ تعالیٰ نے تمھارے حق میں لکھ رکھا ہے ، اور اگر وہ سب کے سب مل کر تمھیں نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ ایسا بھی نہیں کر سکتے ، ہاں اللہ تعالیٰ نے تمھارا جونقصان لکھ رکھا ہے ، وہ توہو کررہے گا ([35]) ۔ ‘‘
ج۔ ایمان باللہ کا تیسرا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات پر پختہ اعتقاد ہوکہ اللہ تعالیٰ تمام اسمائے حسنیٰ ( اچھے ناموں ) سے موسوم ، اور صفاتِ کاملہ سے متصف ہے ، اور وہ اپنے ان اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ کمال میں یکتا ہے،جن کا ذکر اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید ) میں یا اس کے رسول ﷺنے اپنی احادیث مبارکہ میں کیا ہے ، اور ان میں اس کا کوئی مثیل ہے اورنہ کوئی شریک ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلِلَّهِ ٱلۡأَسۡمَآء ٱلۡحسۡنَىٰ فَٱدۡعوه بِهَاۖ وَذَرواْ ٱلَّذِينَ يلۡحِدونَ فِيٓ أَسۡمَٰٓئِهِۦۚسَيجۡزَوۡنَ مَا كَانواْ يَعۡمَلونَ ١٨٠)
ترجمہ :’’اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں ، لہذا تم ان ناموں سے ہی اللہ کو پکارا کرو، اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ([36])۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کجروی کرنے یا ٹیڑھی راہ اختیار کرنے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ اس کے تمام اسمائے حسنی کا یا ان میں سے بعض کا انکار کیا جائے ، اور دوسرا یہ ہے کہ اس کے اسمائے حسنی ،اس کی جن صفاتِ عالیہ پر دلالت کرتے ہیں انہیں تسلیم نہ کیا جائے ، اور تیسرا یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ کے اسمائے حسنی جن عظیم معانی پر دلالت کرتے ہیں ان کے خلاف عمل کیا جائے ، مثلا اس کا ایک نام ( الرزاق ) ہے ، اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رزق دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے ، اور اس کے خلاف عمل یہ ہے کہ اسے چھوڑ کر غیر اللہ کے سامنے جھولی پھیلائی جائے اور غیر اللہ کورزق دینے والا تصورکیا جائے ، اسی طرح اس کا ایک نام ( العظیم ) ہے ، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر قسم کی عظمت وبزرگی اللہ تعالیٰ کیلئے ہے ، اور کائنات کے تمام امور میں اسی کا حکم چلتا ہے ، اس لئے جبینِ نیاز کا جھکانا اور سجدہ ریز ہونا صرف اسی کیلئے روا ہے ، اور اس کے خلاف عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی بزرگ یا ولی کے سامنے اپنے آپ کو جھکایا جائے ، یا اس کی قبر پر سجدہ کیا جائے ، یا غیر اللہ کو کائنات کے امور میں تصرف کرنے والا مانا جائے ۔
اور نبی مکرم حضرت محمدﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:(إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمَا،مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ،وَهوَ وِتْرٌ يحِبٌّ الوِتْرَ)
ترجمہ :’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جوشخص انہیں شمار ( یا حفظ ) کرے گا جنت میں داخل ہوگا، اور وہ (اللہ تعالیٰ) طاق ہے،طاق ہی کو پسند فرماتا ہے ([37]) ۔‘‘
اور اس سے مقصود اسمائے حسنی کو صرف زبانی طور پر شمار کرنا یا حفظ کرنا نہیں بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے مبارکہ کو یاد کرکے ان کے معانی کو اپنے دل میں اتارا جائے ، اور ان کے خلاف عمل نہ کیا جائے ۔
اوراللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں جو اعتقاد ہم نے ذکر کیا ہے یہ دو بنیادوں پر قائم ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کیلئے ہی وہ اچھے نام اور بلند صفات ہیں جو کہ اس کے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہیں، نہ اس کا کوئی ہم مثل ہے اور نہ ہی کائنات میں سے اس کا کوئی شریک ہے۔
مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’’الحی‘‘ (زندہ رہنے والا) ہے ، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کی صفتِ ’’حیات‘‘ ثابت ہوتی ہے ، لہذا اس کے بارے میں ضروری ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کیلئے اسی کامل طریقے پر ثابت کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے، اور یہ زندگی کامل، ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے کہ جس میں کمال کے تمام لوازم مثلا علم اور قدرت وغیرہ موجود ہیں، اور یہ ایسی زندگی ہے جو شروع سے ہے اور کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ٱللَّه لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هوَ ٱلۡحَيّ ٱلۡقَيّومۚ لَا تَأۡخذه سِنَة وَلَا نَوۡمۚ ٢٥٥ )
ترجمہ :’’اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے ( اس کے سوا کوئی معبود نہیں) ، جو زندہ جاوید اور قائم رہنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند ([38])۔‘‘
۲۔اللہ تعالیٰ تمام عیوب ونقائص مثلا نیند، عاجز آجانا، جہالت اور ظلم وغیرہ سے پاک ہے اور مخلوق کی مشابہت سے مبرا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہر اس چیز کی نفی کی جائے جس کی نفی اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات سے اور رسول اللہﷺ نے اپنے رب سے کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَيۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَيۡءۖ وَهوَ ٱلسَّمِيع ٱلۡبَصِير)
ترجمہ :’’اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے ([39])۔‘‘
اورفرمایا: (وَمَا رَبّكَ بِظَلَّٰم لِّلۡعَبِيدِ )
ترجمہ :’’اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ([40])۔‘‘ اور فرمایا: (وَمَا كَانَ ٱللَّه لِيعۡجِزَه مِن شَيۡء فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِي ٱلۡأَرۡضِۚ )٤٤
ترجمہ :’’اور آسمانوں اور زمین میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کو عاجز کر دے ([41])۔‘‘ اور فرمایا: (وَمَا كَانَ رَبّكَ نَسِيّا )٦٤ ترجمہ:’’اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے ([42])۔‘‘
صفاتِ عالیہ کے اثبات کیلئے چند ضروری امور :
اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ کو ثابت کرتے ہوئے پانچ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
۱۔قرآن مجید اور حدیث پاک میں وارد شدہ تمام صفات کو اللہ تعالیٰ کیلئے حقیقی طور پر ثابت کرنا۔
۲۔اس بات پر پختہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمام کامل صفات سے متصف ہے اور تمام عیوب ونقائص سے مبرا ہے۔
۳۔اللہ تعالیٰ کی صفات اور مخلوقات کی صفات میں کسی قسم کی مشابہت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ پاک ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں، نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔
۴۔اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں، اس لئے ان صفات کی کیفیت معلوم کرنے کا تکلف کرنا یا بیان کرنا مخلوق کیلئے قطعا درست نہیں ۔
۵۔ان صفات پر مرتب ہونے والے احکام اور آثار پر ایمان لانا۔
ان پانچ امور کی وضاحت کیلئے ہم اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الاستواء‘‘ سے مثال بیان کرسکتے ہیں، لہذا اس صفت میں ان چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
۱۔شرعی نصوص میں صفت ’’استواء‘‘ وارد ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ، لہذا اس صفت کو اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت کرنا اور اس پر ایمان لاناضروری ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ٱلرَّحۡمَٰن عَلَى ٱلۡعَرۡشِ ٱسۡتَوَىٰ ٥
ترجمہ:’’رحمن عرش پر مستوی ہے([43])۔‘‘
۲۔صفت ’’استواء‘‘ کو اللہ تعالیٰ کیلئے ایسے کامل طریق پر ثابت کرنا جس کا وہ مستحق ہے، اور اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر حقیقی طور پر مستوی ہے جیسا کہ اس کے شایان شان ہے۔
۳۔اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کو مخلوقات کے مستوی ہونے سے تشبیہ نہ دینا، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عرش سے بے نیاز ہے، اور وہ اس کا محتاج نہیں ہے۔
۴۔اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت میں غور وفکر نہ کرنا، کیونکہ یہ ایک غیبی معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، جیسا کہ امام مالک ؒ کا مشہور قول ہے : (الاسْتِواء مَعْلوْمٌ، وَالْكَيْف مَجْهولٌ، وَالإيمَان بِهِ وَاجِبٌ، وَالسّؤَال عَنْه بِدْعَةٌ)یعنی ’’ استواء( کا معنی ) معلوم ہے ، اس کی کیفیت نا معلوم ہے ، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے([44])۔‘‘
۵۔اس صفت پر مرتب ہونے والے احکام اور آثار پر ایمان لانا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، بزرگی اور بڑائی جو اس کے شایان شان ہے، اور اسی طرح اس صفت سے اللہ تعالیٰ کا مطلقاً اپنی مخلوقات پر بلند ہوناثابت ہوتا ہے اوراس میں ان لوگوں پر رد ہے جو اللہ تعالیٰ کو ذات کے اعتبار سے ہر جگہ پر موجود مانتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر ہی مستوی ہے ، ہاں وہ اپنی صفات ( مثلا علم ، سننا ، دیکھنا ، نگرانی کرنا اور احاطہ کرنا وغیرہ ) کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے ، اور دنیا میں کوئی کام اس کے علم کے بغیر نہیں ہوتا ، اور وہ کائنات کی تمام حرکات وسکنات کا علم رکھتا ہے ، اور انہیں سنتا اور دیکھتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَعِندَه مَفَاتِح ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمهَآ إِلَّا هوَۚ وَيَعۡلَم مَا فِي ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِۚ وَمَا تَسۡقط مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمهَا وَلَا حَبَّة فِي ظلمَٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡب وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَٰب مّبِين ٥٩ ترجمہ : ’’اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں ، اور انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، سمندر اور خشکی میں جو کچھ ہے وہ اسے جانتا ہے ، اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو ، نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ، اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہے سب کتاب مبین میں موجود ہے ([45]) ۔ ‘‘
اور یہ جو ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر مستوی ہے، اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا اسم گرامی ( العلیّ ) بھی کرتا ہے جس سے اس کی صفت ( العلو ) ثابت ہوتی ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَهوَ ٱلۡعَلِيّ ٱلۡعَظِيم٢٥) ترجمہ : ’’وہ بلند وبرتر اور عظمت والا ہے([46])۔‘‘
اور اللہ کے بندوں کے دل بھی سجدہ کی حالت میں ، اور اسی طرح دعا کرتے ہوئے اسی بلندی کی طرف ہی متوجہ ہوتے ہیں ، اور سجدہ کرنے والا پکارتا ہے: (سبْحَانَ رَبِّیَ الأعْلٰی)’’پاک ہے میرا پروردگار جو بلند وبالا اور عظمت والا ہے‘‘۔
ذاتی اور فعلی صفات کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ
اللہ تعالی ٰکے اسماء وصفات کے بارے میں جو عقیدہ ہم نے ذکر کیا ہے، اہل السنۃ والجماعۃ یہی عقیدہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی اور فعلی صفات کے بارے میں بھی رکھتے ہیں ، ذاتی صفات سے مراد وہ صفات عالیہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات سے متعلق ہیں ، مثلا چہرہ ، ہاتھ ، اور انگلیاں وغیرہ ہیں ، اور یہ وہ صفات ہیں جن کا قرآن مجید کی آیاتِ کریمہ ، اور احادیث نبویہ میں ذکر آیا ہے ، اور فعلی صفات سے مقصود وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعض افعال سے متعلق ہیں مثلا آنا ، نازل ہونا ، محبت کرنا ، راضی ہونا ، پسند کرنا ، نا پسند کرنا ، ناراض ہونا ، غضبناک ہونا ، انتقام لینا ، ہنسنا، خوش ہونا وغیرہ ….اور یہ تمام صفات بھی قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ اہل السنۃ والجماعۃ ان تمام صفات کو اللہ تعالیٰ کیلئے اس طرح ثابت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی بڑائی اور عظمتِ شان کے لائق ہے ، اور وہ ان صفات کی تاویل نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں ، بلکہ ان پر یوں ایمان لاتے ہیں جیسا کہ اس کے شایان شان ہے ۔
دوسرا رکن:فرشتوں پر ایمان لانا
۱۔ ایمان بالملائکہ کی تعریف
اس بات پر پختہ اعتقاد رکھنا کہ ’’ملائکہ‘‘ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں جسے اس نے نور سے پیدا فرمایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں ، اور وہ انہیں جو حکم دیتا ہے وہ کر گزرتے ہیں، اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے، وہ دن رات اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، اور اس سے ذرا نہیں اکتاتے، اوران کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور اس نے ان کے ذمہ مختلف قسم کے فرائض سونپ رکھے ہیں۔
یاد رہے کہ ایمان بالملائکہ یعنی فرشتوں پر ایمان لانا، ایمان کے ان چھ ارکان میں سے دوسرا رکن ہے جن کے بغیر بندے کا ایمان نہ تو درست ہوتا ہے اور نہ ہی قبول کیا جاتا ہے، اور مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ معزز فرشتوں پر ایمان لانا واجب ہے، اور اگر کوئی شخص ان کے وجود کا، یا ان میں سے بعض کے وجود کا انکار کرے ، تووہ کافر ہے اور کتاب وسنت اور اجماعِ امت کا مخالف ہے۔
۲۔ فرشتوں پر ایمان لانے کی کیفیت
فرشتوں پر ایمان لانا دو طرح کا ہے اجمالی اور تفصیلی۔
اجمالی ایمان: دو امور پر مشتمل ہے:
أ۔ان کے وجود کا اقرار کرنا اور اس بات کا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے، ان کا وجود حقیقی ہے، اورہمارا ان کو نہ دیکھ سکنا ان کے نہ ہونے کی دلیل نہیں، کیونکہ کائنات میں کتنی ہی ایسی عجیب وغریب مخلوقات ہیں جن کا وجود حقیقی ہے لیکن ہم نے انہیں دیکھا نہیں، اور یہاں فرشتوں کے وجود پر بعض دلائل کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے :
(۱) نبی اکرم ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓبیان فرماتے ہیں:
(رَأیٰ رَسوْل اﷲِ ﷺ جِبْرِیْلَ فِیْ صوْرَتِه وَلَه سِتّمِأةِ جَنَاحٍ، وَکلّ جَنَاحٍ مِّنْهَا قَدْ سَدَّ الأفقَ)
ترجمہ :’’کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل امین علیہ السلام کو اپنی اصل شکل میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے، اورہر پر نے مشرق ومغرب کی پوری فضا (آسمان کو ) ڈھانپا ہوا تھا ([47])۔‘‘
(۲) اور اسی طرح بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بعض فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھا جیسا کہ حدیثِ جبریل میں حضرت عمر ؓ بیان فرماتے ہیں: کہ ایک دفعہ حضرت جبریل علیہ السلام ایک آدمی کی شکل میں آئے، جن کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے، ان پر سفر کا کوئی نشان نہ تھااور ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی انہیں پہچانتا بھی نہ تھا، انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے ایمان ، اسلام ، احسان ، قیامت اور اس کی علامات کے بارے میں سوالات کئے ، آپ ﷺ نے انہیں جوابات دئیے ، پھر جب وہ چلے گئے ، تو رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو دین سکھلانے آئے تھے ([48]) ۔‘‘
اور حضرت سعد ؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے جنگِ احد میں نبی کریم ﷺ کے دائیں بائیں دو آدمی دیکھے جنہوں نے سفید رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا ، اورانہیں میں نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھا . یعنی حضرت جبریل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام([49])۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت جبریل علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھا تھا ، اور یہ فرشتوں کے وجود کی دلیل ہے۔
(۳) فرشتوں کا جنگ بدر میں شریک ہونا
ارشاد باری تعالیٰ ہے : (بَلَىٰٓۚ إِن تَصۡبِرواْ وَتَتَّقواْ وَيَأۡتوكم مِّن فَوۡرِهِمۡ هَٰذَا يمۡدِدۡكمۡ رَبّكم بِخَمۡسَةِ ءَالَٰف مِّنَ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ مسَوِّمِينَ ١٢٥ )
ترجمہ : ’’ کیوں نہیں ! اگر تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور (اگر ) دشمن تم پر فورا چڑھ آئے تو تمہارا رب خاص نشان رکھنے والے پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ([50])۔ ‘‘ اور حضرت رفاعۃ بن رافع الزرقی ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے :
( مَا تَعدّوْنَ أَهل بَدْرٍ فِیْکمْ ؟ )’’ اہلِ بدر کا آپ کے نزدیک کیا مقام ہے؟ ‘‘ آپﷺ نے جواب دیا : ( مِنْ أَفْضَلِ الْمسْلِمِیْنَ) ’’ وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں ‘‘ ( یا آپ ﷺنے اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا ۔) حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : (وَکَذٰلِکَ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلاَئكةِ)’’اور اسی طرح وہ فرشتے بھی سب سے افضل ہیں جوجنگِ بدر میں شریک ہوئے تھے ([51]) ۔ ‘‘
ب۔ان کو جو مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے انہیں اسی پر برقرار رکھنا، اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مامور بندے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت دی ہے ، ان کے مرتبہ کو بلند کیا اور انہیں اپنا تقرب نصیب کیا ہے، ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کی وحی وغیرہ کے پیامبر اور قاصد ہیں، اوران میں اتنی ہی طاقت ہے جس قدر اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہے، اس کے باوجود وہ اپنے اور دوسروں کے کسی نفع ونقصان کے مالک نہیں، اس لئے کسی قسم کی عبادت کو ان کیلئے بجا لانا جائز نہیں، چہ جائیکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف کیا جائے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت جبریل علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَقَالواْ ٱتَّخَذَ ٱلرَّحۡمَٰن وَلَدٗاۗ سبۡحَٰنَهۚبَلۡ عِبَاد مّكۡرَمونَ ٢٦ لَا يَسۡبِقونَه بِٱلۡقَوۡلِ وَهم بِأَمۡرِهِۦ يَعۡمَلونَ ٢٧ )
ترجمہ : ’’(مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمن اولاد والا ہے ، اس کی ذات پاک ہے، بلکہ وہ سب اس کے معزز بندے ہیں، کسی بات میں اللہ تعالیٰ پر سبقت نہیں لے جاتے، بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں ([52])۔‘‘
اور فرمایا: ل (َّا يَعۡصونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَهمۡ وَيَفۡعَلونَ مَا يؤۡمَرونَ )
ترجمہ :’’انہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں([53])۔‘‘
فرشتوں کے بارے میںیہ تھا اجمالی ایمان جو ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے ۔
تفصیلی ایمان: تفصیلی ایمان ان چیزوں پر مشتمل ہے:
أ۔ ان کی پیدائش : اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیاہے ، جیسا کہ اس نے جنوں کو آگ اور بنی آدم کو مٹی سے پیدا کیا، اور ان کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (خلِقَتِ الْمَلاَءِکَة مِنْ نّوْرٍ، وَخلِقَ الْجَانّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ، وَخلِقَ آدَم مِمَّا وصِفَ لَکمْ)
ترجمہ :’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ، اور جنوں کو بھڑکنے والے شعلے سے ، اور آدم کو اس چیز سے جس کا وصف تمہارے لئے بیان کیا گیا(یعنی مٹی سے ) ([54])۔‘‘
ب۔فرشتوں کی تعداد: فرشتے ایک ایسی مخلوق ہیں کہ جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: (وَمَا يَعۡلَم جنودَ رَبِّكَ إِلَّا هوَۚ ٣١)
ترجمہ :’’اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا([55])۔‘‘
اورحضرت ابو ذر ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:(إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَع مَا لَا تَسْمَعونَ،أَطَّتِ السَّمَاء وَحقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا مَوْضِع أَرْبَعَةِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَه سَاجِدًا لِلَّهِ )
ترجمہ :’’بے شک میں وہ چیز دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ، اورمیں وہ چیز سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ، آسمان چرچرایا اور اسے حق ہے کہ وہ چرچرائے،( کیونکہ ) اس میں چار انگلیوں کے برابر کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ تعالی ٰکے سامنے سجدہ ریز نہ ہو([56])۔‘‘
اورقصۂ معراج میں آپ ﷺنے بیان فرمایا کہ جب انہیں ساتویں آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ البیت المعمور کی طرف ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں ، اورالبیت المعمور کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:
(یَدْخله فِیْ کلِّ یَوِمٍ سَبْعوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ لاَ یَعوْدوْنَ إِلَیْهِ)
ترجمہ :’’ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں ، جوپھر کبھی دوبارہ اس کی طرف نہیں پلٹتے ([57])۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(یؤْتٰی بِالنَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَها سَبْعوْنَ أَلْفَ زِمَامٍ ، مَعَ کلِّ زِمَامٍ سَبْعوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ یَجرّوْنَھا)
ترجمہ : ’’ قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا ، اس کی ستر ہزار لگامیں ہو نگی ، اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہو نگے جو اسے کھینچ رہے ہونگے ([58])۔ ‘‘
ان تمام احادیث سے ہمارے لئے واضح ہوجاتا ہے کہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے پاس نہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے ان کو پیدا کیا اور ان کی گنتی کو شمار کیا۔
ج۔فرشتوں کے نام: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید یا رسول اللہﷺنے حدیث پاک میں جن فرشتوں کے نام ذکر کیے ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہے اور ان میں سے تین عظیم فرشتوں کے نام یہ ہیں :
(۱) حضرت جبریل علیہ السلام ، انہیں جبرائیل بھی کہا جاتا ہے اور وہی روح القدس ہیں ،اور ان کے ذمے انبیاءعلیہم الصلاۃ والسلام پر وحی نازل کرنا تھا ۔
(۲)حضرت میکائیل علیہ السلام ، انہیں میکال بھی کہا جاتا ہے، اوران کے ذمہ بارش نازل کرنا ہے ، اوروہ اسے وہاں نازل کرتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔
(۳) حضرت اسرافیل علیہ السلام ، جن کے ذمہ صور میں پھونکنا ہے ، اور وہ اللہ تعالی ٰکے حکم کے منتظر ہیں ، جب انہیں حکم ملے گا تو وہ صور میں پھونکیں گے جس سے دنیاوی زندگی کی انتہاء ہو جائے گی ، اس کے بعد وہ دوبارہ اس میں پھونکیں گے جس سے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونگے ۔
د۔فرشتوں کی صفات: فرشتے ایک حقیقی مخلوق ہیں، اور ان کے حقیقی اجسام ہیں جو بعض صفات سے متصف ہیں، جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
۱۔ان کی پیدائش کی عظمت اور اجسام کی ضخامت: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بڑی طاقتور شکلوں میں پیدا فرمایا ہے جو ان کے بڑے بڑے اعمال کے شایان شان ہیں،وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیے ہیں۔
۲۔ ان کے پر ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے دو دو، تین تین اور چار چار پر بنائے ہیں اور اس سے زیادہ بھی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا، توان کے چھ سو پر تھے ، اور ہر پر نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ٱلۡحَمۡد لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ جَاعِلِ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ رسلًا أوْلِيٓ أَجۡنِحَة مَّثۡنَىٰ وَثلَٰثَ وَربَٰعَۚ يَزِيد فِي ٱلۡخَلۡقِ مَا يَشَآءۚ ١)
ترجمہ :’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو (ابتداءً )آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ، اور جو دو دو، تین تین، چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے، اور وہ مخلوق میں جس قدر چاہے اضافہ کرتا ہے([59])۔‘‘
۳۔وہ کھانے پینے کے محتاج نہیں ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس طرح پیدا فرمایاکہ وہ نہ تو کھانے کے محتاج ہیں اور نہ پینے کے ، اور نہ وہ شادی کرتے ہیں اور نہ ہی آگے ان کی نسل چلتی ہے۔
۴۔فرشتے صاحب عقل وخرد اور دل والے ہیں: انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کلام کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے، اورانہوں نے آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاءعلیہم السلام سے بھی کلام کی ہے۔
۵۔وہ اپنی حقیقی شکل کی بجائے دوسری شکل اختیار کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ طاقت وقوت عطا کی ہے کہ وہ انسان کی شکل وصورت اختیار کر سکتے ہیں۔
ھ۔فرشتوں کی موت: تمام فرشتے، ملک الموت سمیت قیامت کے دن فوت ہوجائیں گے، پھر انہیں ان اعمال کی ادائیگی کیلئے دوبارہ اٹھایا جائیگا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کر رکھے ہیں۔
و۔فرشتوں کی عبادت: فرشتے اللہ تعالی کیلئے مختلف قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں مثلا دعا، تسبیح، رکوع، سجود، خوف، خشیت، محبت وغیرہ ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يسَبِّحونَ ٱلَّيۡلَ وَٱلنَّهَارَ لَا يَفۡترونَ ٢٠)
ترجمہ :’’وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں سستی اور کمی نہیں کرتے ([60]) ۔‘‘
ز۔فرشتوں کے فرائض: فرشتے وہ بڑی بڑی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کی ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔عرش کے اٹھانے والے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(ٱلَّذِينَ يَحۡمِلونَ ٱلۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَه يسَبِّحونَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيؤۡمِنونَ بِهِۦ وَيَسۡتَغۡفِرونَ لِلَّذِينَ ءَامَنواْۖ رَبَّنَا وَسِعۡتَ كلَّ شَيۡء رَّحۡمَة وَعِلۡما فَٱغۡفِرۡ لِلَّذِينَ تَابواْ وَٱتَّبَعواْ سَبِيلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ ٱلۡجَحِيمِ٧رَبَّنَا وَأَدۡخِلۡهمۡ جَنَّٰتِ عَدۡنٍ ٱلَّتِي وَعَدتَّهمۡ وَمَن صَلَحَ مِنۡ ءَابَآئِهِمۡ وَأَزۡوَٰجِهِمۡ وَذرِّيَّٰتِهِمۡۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيز ٱلۡحَكِيم ٨)
ترجمہ :’’جو ( فرشتے ) عرش اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اور ایمان والوں کیلئے استغفار کرتے ہیں، ( اور کہتے ) ہیں : اے ہمارے رب ! تو نے اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ، لہذا جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی انہیں بخش دے ، اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے ،اے ہمارے رب ! انہیں ان ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور ان کے آباؤ اجداد ، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں انہیں بھی ، بلا شبہ تو ہر چیز پر غالب ، اور حکمت والا ہے ([61])۔‘‘اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ کئی فرشتے ایسے ہیں جو عرشِ الہی کو اٹھائے ہوئے ہیں ، اور وہ اللہ رب العزت کی تسبیحات پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان ایمان والوں کیلئے دعائیں بھی کرتے ہیں جنہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی پیروی کی ۔
۲۔وہ فرشتہ جس کے ذمہ رسولوں پر وحی کو نازل کرنا ہے، اور وہ حضرت جبریل علیہ السلام ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(قلۡ مَن كَانَ عَدوّٗا لِّـجِبۡرِيلَ فَإِنَّه نَزَّلَه عَلَىٰ قَلۡبِكَ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ )
ترجمہ :’’جو جبریل کا دشمن ہو اس سے آپ کہہ دیجئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے دل پر پیغامِ باری اتارا ہے([62])‘‘۔
۳۔وہ فرشتہ جس کے ذمہ ’’صور‘‘ میں پھونکنا ہے، اور وہ حضرت اسرافیل علیہ السلام ہیں۔
۴۔وہ فرشتے جو بنی آدم کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : (وَإِنَّ عَلَيۡكمۡ لَحَٰفِظِينَ ١٠كِرَاما كَٰتِبِينَ ١١ يَعۡلَمونَ مَا تَفۡعَلونَ )١٢
ترجمہ : ’’اور تم پر نگران ( فرشتے ) مقرر ہیں ، جو معزز ہیں ، اعمال لکھنے والے ، جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں([63]) ۔ ‘‘ اور اعمال کے لکھنے والے فرشتے دن اور رات کے الگ الگ ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :(يَتَعَاقَبونَ فِيكمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ ثمَّ يَعْرج الَّذِينَ بَاتوا فِيكمْ فَيَسْأَلهمْ رَبّهمْ وَهوَ أَعْلَم بِهِمْ كَيْفَ تَرَكْتمْ عِبَادِي فَيَقولونَ تَرَكْنَاهمْ وَهمْ يصَلّونَ وَأَتَيْنَاهمْ وَهمْ يصَلّونَ)
ترجمہ : ’’ تم میں دن اور رات کے فرشتے باری باری آتے ہیں ، اور وہ نماز فجر اور نماز عصر کے وقت جمع ہوتے ہیں ، پھر وہ فرشتے اوپر جاتے ہیں جنہوں نے تمہارے پاس رات گذاری ہوتی ہے ، چنانچہ ان کا رب ان سے سوال کرتا ہے ، حالانکہ وہ ان کے بارے میں زیادہ جانتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ تو وہ کہتے ہیں : ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے ، اور جب ان کے پاس آئے تو تب بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے ([64])۔‘‘
۵۔ وہ فرشتے جن کے ذمہ بادل، بارش اور پودوں کو اگانا ہے۔
۶۔وہ فرشتے جن کے ذمہ پہاڑوں کے امور ہیں۔
۷۔جنت اور جہنم کے خازن
۸۔وہ فرشتے جو بنی آدم کی حفاظت پر مامور ہیں.
ارشاد باری تعالیٰ ہے : (لَه معَقِّبَٰت مِّنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ يَحۡفَظونَه مِنۡ أَمۡرِ ٱللَّهِۗ ١١)
ترجمہ:’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے اللہ کے مقرر کردہ نگران ( فرشتے ) ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں([65]) ۔ ‘‘
۹۔وہ فرشتے جن کے ذمہ انسان کے ساتھ رہنا اور اس کیلئے بھلائی کی دعا کرنا ہے۔
۱۰۔وہ فرشتے جو رحم میں نطفہ کے امور اور انسان میں روح پھونکنے، اس کا رزق، عمل، بدبختی اور سعادت مندی لکھنے پر مامور ہیں۔
حضرت حذیفۃ بن أ سِید الغفاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (إِذَا مَرَّبِالنّطْفَةِ اثْنَتَانِ وَأَرْبَعونَ لَيْلَةً بَعَثَ اللَّه إِلَيْهَا مَلَكًا فَصَوَّرَهَا، وَخَلَقَ سَمْعَهَا، وَبَصَرَهَا، وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا، وَعِظَامَهَا ثمَّ قَالَ:يَا رَبِّ أَذَكَرٌ أَمْ أنْثَى؟ فَيَقْضِي رَبّك مَا شَاءَ ، وَيَكْتب الْمَلَك ، ثمَّ يَقول: يَا رَبِّ أَجَله ، فَيَقول رَبّك مَا شَاءَ، وَيَكْتب الْمَلَك ثمَّ یَخْرج الْمَلَک بِالصَّحِیْفةِ فِیْ یَدِه ،فَلاَ یَزِیْد عَلٰی مَا أمِرَ وَلاَ یَنْقص)
ترجمہ : ’’جب ( رحمِ مادر میں ) نطفہ پر بیالیس راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے ، جو اس کی شکل وصورت بناتا ہے ، اور اس کے کان ، آنکھیں ، جلد ، گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب ! مرد یا عورت ؟ تو تمہارا رب جو چاہتا فیصلہ فرماتاہے ، اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب !اس کی عمر کتنی ہو گی ؟ تو تمہارا رب جو چاہتا ہے کہتا ہے ، اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب !اس کا رزق کتنا ہو گا ؟ تو تمہارا رب جو چاہتا فیصلہ فرماتاہے ، اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ، اس کے بعد فرشتہ صحیفہ لے کر نکل جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں کرتا ([66])۔ ‘‘
۱۱۔وہ فرشتے جو موت کے وقت بنی آدم کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَهوَ ٱلۡقَاهِر فَوۡقَ عِبَادِهِۦۖ وَيرۡسِل عَلَيۡكمۡ حَفَظَةً حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَكم ٱلۡمَوۡت تَوَفَّتۡه رسلنَا وَهمۡ لَا يفَرِّطونَ )
ترجمہ : ’’اور وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگران (فرشتے ) بھیجتا ہے ، حتی کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کر لیتے ہیں ، اور وہ ( اپنے کام میں ) ذر ہ بھرکوتاہی نہیں کرتے ([67])۔ ‘‘
نیز فرمایا : (وَلَوۡ تَرَىٰٓ إِذِ ٱلظَّٰلِمونَ فِي غَمَرَٰتِ ٱلۡمَوۡتِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَة بَاسِطوٓاْ أَيۡدِيهِمۡ أَخۡرِجوٓاْ أَنفسَكمۖ )٩٣
ترجمہ :’’اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو ([68]) ۔‘‘
۱۲۔وہ فرشتے جو قبر میں لوگوں سے سوال کرنے اور اس پر مرتب ہونی والی نعمتوں یا عذاب دینے پر مامور ہیں۔
۱۳۔وہ فرشتے جن کی ذمہ داری امت کے سلام کو نبی ﷺتک پہنچانا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
(إِنَّ لِلّٰہِ مَلاَئكةً سَیَّاحِیْنَ فِیْ الْأرْضِ یبَلِّغوْنِیْ عَنْ أمَّتِیْ السَّلاَمَ)
ترجمہ : ’’بے شک اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں سیاحت کرتے رہتے ہیں ، اور وہ مجھ تک میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں ([69])۔ ‘‘
تیسرا رکن:کتابوں پر ایمان لانا
اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام پر جو کتابیں نازل کیں ان پر ایمان لانا،ارکانِ ایمان میں سے تیسرا رکن ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر کتابوں کو نازل کیا جو کہ مخلوق کیلئے باعث رحمت وہدایت ہیں۔
جیسا کہ قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(ذَٰلِكَ ٱلۡكِتَٰب لَا رَيۡبَۛ فِيهِۛ هدٗى لِّلۡمتَّقِينَ ٢ )
ترجمہ : ’’ اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں اور یہ پرہیزگاروں کیلئے باعثِ ہدایت ہے ([70]) ۔ ‘‘
نیز فرمایا : (شَهۡر رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أنزِلَ فِيهِ ٱلۡقرۡءَان هدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰت مِّنَ ٱلۡهدَىٰ وَٱلۡفرۡقَانِۚ )١٨٥
ترجمہ : ’’ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو لوگوں کیلئے باعثِ ہدایت ہے ، اور اس میں ہدایت کی اور ( حق وباطل کے درمیان ) فرق کرنے کی نشانیاں ہیں ([71])۔ ‘‘
اورآسمانی کتابیں بندوں کیلئے دنیا وآخرت کی سعادت کی ضامن ، اور ان کیلئے دنیا میں گزر بسر کرنے کیلئے ایک نظام زندگی اور دستورِ حیات ہیں ، اور لوگوں کے اختلاف کی صورت میں ان کے درمیان فیصلہ کرنے والی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (لَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رسلَنَا بِٱلۡبَيِّنَٰتِ وَأَنزَلۡنَا مَعَهم ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡمِيزَانَ لِيَقومَ ٱلنَّاس بِٱلۡقِسۡطِۖ٢٥ )
ترجمہ : ’’یقیناًہم نے اپنے پیغمبروں کو واضح دلائل دے کر مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو کو نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں([72]) ۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی ٰنے اپنے رسولوں پر کتابیں نازل کرنے کی حکمت ذکر فرمائی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ تاکہ لوگ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے ۔
۱۔ کتابوں پر ایمان لانے کی حقیقت
کتابوں پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ دل سے اس بات کی تصدیق کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ کتابیں اپنے رسولوں پر نازل فرمائی ہیں جو کہ اس کا حقیقی کلام ہے ،اور غیر مخلوق ہے ، اور ان میں نور ہے اور وہ باعثِ ہدایت ہیں اور ان میں جو کچھ ہے اس کی پیروی کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے اور ان کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اور جو شخص اللہ تعالی کی نازل کردہ کتابوں کا یا ان میں سے بعض کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَٰٓأَيّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنوٓاْ ءَامِنواْ بِٱللَّهِ وَرَسولِهِۦ وَٱلۡكِتَٰبِ ٱلَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسولِهِۦ وَٱلۡكِتَٰبِ ٱلَّذِيٓ أَنزَلَ مِن قَبۡلۚ وَمَن يَكۡفرۡ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكتبِهِۦ وَرسلِهِۦ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلَٰلَۢا بَعِيدًا ) ١٣٦ ترجمہ:’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول (ﷺ) پر اور اس کتاب پر ایمان لے آؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور اسی طرح ان کتابوں پر بھی جو اس نے اس سے پہلے نازل کی ہیں ، اورجس شخص نے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن سے کفر کیا ، وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا ([73])۔‘‘
۲۔کتابیں نازل کرنے کی حکمت
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں متعدد حکمتوں کے پیشِ نظر نازل فرمائیں ، ان میں سے چند حکمتیں یہ ہیں :
(۱) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اس لئے نازل فرمائیں کہ تاکہ اس کے بندے اپنے تمام مسائل میں انہیں اپنا مرجع بنائیں ، اور ہر مسئلہ میں ان کی طرف رجوع کریں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(فَإِن تَنَٰزَعۡتمۡ فِي شَيۡء فَردّوه إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسولِ إِن كنتمۡ
تؤۡمِنونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡر وَأَحۡسَن تَأۡوِيلًا ٥٩)
ترجمہ : ’’ پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ، اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو ، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے ([74])۔ ‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ عرفات میں خطبۂ حجۃ الوداع کے دوران رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو تلقین فرمائی کہ وہ کتاب اللہ ( قرآن مجید ) کو مضبوطی سے تھام لے ، اس طرح وہ کبھی گمراہ نہیں ہوگی ، لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن مجید کو سیکھیں ، پڑھیں ، اس میں غور وفکر کریں اور اس پر عمل کریں ۔
(۲) دوسری حکمت یہ ہے کہ لوگ ان کے ذریعے فیصلے کر سکیں ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
(كَانَ ٱلنَّاس أمَّةٗ وَٰحِدَةٗ فَبَعَثَ ٱللَّه ٱلنَّبِيِّۧنَ مبَشِّرِينَ وَمنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهم ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِيَحۡكمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخۡتَلَفواْ فِيهِۚ٢١٣ )
ترجمہ : ’’در اصل لوگ ایک ہی جماعت تھے پھر اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والے بنا کر مبعوث فرمایا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے([75])۔‘‘
اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے باہمی اختلافات کا فیصلہ قرآن مجید کے ذریعے کریں ، اورہ تمام متنازعہ امور میں کتاب اللہ کی طرف رجوع کریں ، اور کتاب اللہ جو فیصلہ کردے وہ اس کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دیں اور اسے کھلے دل سے تسلیم کر لیں۔
(۳) تیسری حکمت یہ ہے کہ رسولﷺ کے انتقال کے بعد اللہ کا دین ان کتابوں کے ذریعے محفوظ رہے ، اور اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (تَرَکْت فِیْکمْ شَیْئين،لَنْ تَضِلّوْابَعْدَهمَا:کِتَابَ اللّٰہِ وَسنَّتِیْ ، وَلَنْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ)
ترجمہ : ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں : ان کے بعد ( یعنی اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھام لیا تو) کبھی گمراہ نہیں ہو گے : ایک ہے کتاب اللہ ( قرآن مجید ) اور دوسری ہے میری سنت ، اور یہ دونوں کبھی جدا جدا نہیں ہو نگی یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس آئیں گی ([76])۔‘‘
(۴) چوتھی حکمت یہ ہے کہ یہ کتابیں لوگوں پراللہ تعالیٰ کی حجت کے طور پر قائم رہیں اورتاکہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ میرے پاس تو کوئی نصیحت کرنے والا آیا ہی نہ تھا ، اور چونکہ کتاب اللہ (قرآن مجید ) موجود اور بفضل اللہ محفوظ ومامون ہے اس لئے یہ واجب الاتباع ہے ، جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے : (ٱتَّبِعواْ مَآ أنزِلَ إِلَيۡكم مِّن رَّبِّكمۡ وَلَا تَتَّبِعواْ مِن دونِهِۦٓ أَوۡلِيَآءَۗ ٣ )
ترجمہ : ’’تم لوگ اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کردوسرے سرپرستوں کی پیروی مت کرو([77])۔‘‘
اور فرمایا: (وَهَٰذَا كِتَٰبٌ أَنزَلۡنَٰه مبَارَك فَٱتَّبِعوه وَٱتَّقواْ لَعَلَّكمۡ ترۡحَمونَ )١٥٥
ترجمہ : ’’اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، یہ بڑی برکت والی ہے، لہذا تم اس کی پیروی کرو اور ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ([78]) ۔‘‘
۳۔کتابوں پر ایمان لانے کی کیفیت
اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا دو طرح کا ہے اجمالی اور تفصیلی ، اجمالی ایمان سے مقصود یہ ہے کہ آپ اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءعلیہم السلام پر کتابوں کو نازل فرمایا ہے۔
اورتفصیلی ایمان سے مقصود یہ ہے کہ آپ ان کتابوں پر ایمان لائیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نام لے کر اپنی کتاب قرآن مجید میں کیا ہے ، اور وہ ہیں : قرآن کریم ، توراۃ ، زبور، انجیل اور حضرت ابراہیم وموسیٰ علیہما السلام کے صحیفے ، اور آپ اس بات پر بھی ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ کی اور بھی کتابیں ہیں جن کو اس نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا جن کے ناموں اور تعداد کا علم سوائے اس کے اور کسی کو نہیں۔
اور یہ بات ہمارے ذہنوں میں رہے کہ ان تمام کتابوں کی دعوت ایک ہی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے بندے صرف اللہ تعالی کی عبادت کریں ، اس کی توحید کا اقرار کریں ،محض اس کی رضا کیلئے اعمال صالحہ انجام دیں ، اورشرک اور معاصی سے اجتناب کریں ۔
آسمانی کتابیں
آسمانی کتب جن کا ذکر قرآن وحدیث میں وارد ہے مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔قرآن کریم: یہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام پاک ہے جسے اس نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا، اور یہ نازل کردہ آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے ، اور جس کی ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ہوا ہے اور اسے دوسری تمام کتابوں کیلئے ناسخ قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّا نَحۡن نَزَّلۡنَا ٱلذِّكۡرَ وَإِنَّا لَه لَحَٰفِظونَ ٩ )
ترجمہ : ’’ہم نے ہی اس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ([79])۔‘‘
اور فرمایا: (وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ مصَدِّقٗا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَمهَيۡمِنًا عَلَيۡهِۖ فَٱحۡكم بَيۡنَهم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهۖ )٤٨
ترجمہ : ’’اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے ، اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اس اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ فیصلہ کیجئے([80])‘‘
یاد رہے کہ قرآن مجید سابقہ تمام کتابوں سے چند امور میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے ان میں سے اہم امورکچھ یوں ہیں:
أ۔قرآن مجید اپنے لفظ ومعنی میں اور کونی وعلمی حقائق میں معجزانہ حیثیت کا حامل ہے۔
ارشاد باری تعالی ٰہے : (قل لَّئِنِ ٱجۡتَمَعَتِ ٱلۡإِنس وَٱلۡجِنّ عَلَىٰٓ أَن يَأۡتواْ بِمِثۡلِ هَٰذَا ٱلۡقرۡءَانِ لَا يَأۡتونَ بِمِثۡلِهِۦ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضهمۡ لِبَعۡض ظَهِيرا ٨٨)
ترجمہ : ’’ آپ کہہ دیجئے ! اگر جن وانس سب مل کر قرآن جیسی کوئی چیز بنا لائیں تو نہ لا سکیں گے ، خواہ وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں ([81])۔ ‘‘
ب۔قرآن مجید آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے، اس کے نزول کے ساتھ ہی کتابوں کے نزول کا سلسلہ ختم کر دیا گیا، جیسا کہ ہمارے نبی محمد ﷺکے آنے کے بعد رسالت کے دروازہ کو بند کر دیا گیا۔
ج۔اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی تحریف سے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے ، جبکہ دوسری کتابوں کا معاملہ یہ نہیں ہے ،اور اسی لئے ان میں تحریف واقع ہوچکی ہے۔
د۔قرآن مجیدسابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور ان پر محافظ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(مَا كَانَ حَدِيثٗا يفۡتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصۡدِيقَ ٱلَّذِي بَيۡنَ يَدَيۡهِ
وَتَفۡصِيلَ كلِّ شَيۡء وَهدٗى وَرَحۡمَةٗ لِّقَوۡم يؤۡمِنونَ ١١١)
ترجمہ : ’’یہ قرآن جھوٹی، بنی بنائی بات نہیں بلکہ یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتاہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں ، اور یہ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے اور ایمان والوں کیلئے باعث ہدایت ورحمت ہے ([82])۔‘‘
ھ۔ یہ سابقہ تمام کتب کا ناسخ ہے۔
۲۔تورات: یہ اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس کو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا اور اسے باعث نور وہدایت بنایا ، اور اس کے ذریعے بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام اور ان کے علماء فیصلے فرماتے تھے۔
اور ہاں اس تورات پر ایمان لانا واجب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا ، نہ کہ اس تحریف شدہ تورات پر جو اہل کتاب کے پاس موجود ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
(إِنَّآ أَنزَلۡنَا ٱلتَّوۡرَىٰةَ فِيهَا هدٗى وَنورۚ يَحۡكم بِهَا ٱلنَّبِيّونَ ٱلَّذِينَ أَسۡلَمواْ لِلَّذِينَ هَادواْ وَٱلرَّبَّٰنِيّونَ وَٱلۡأَحۡبَار بِمَا ٱسۡتحۡفِظواْ مِن كِتَٰبِ ٱللَّهِ ٤٤ )
ترجمہ : ’’ بلاشبہ ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت ونور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیا (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علما فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا([83])۔‘‘
۳۔انجیل: یہ اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جس کو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا اور وہ پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ تاہم اس امر کا جاننا ضروری ہے کہ صرف اس انجیل پر ایمان لانا واجب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کے صحیح اصولوں کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا ، نہ کہ اس انجیل پر جو آج اہل کتاب کے پاس موجود ہے، اور اس میں تحریف کر دی گئی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَقَفَّيۡنَا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم بِعِيسَى ٱبۡنِ مَرۡيَمَ مصَدِّقٗا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ مِنَ ٱلتَّوۡرَىٰةِۖ وَءَاتَيۡنَٰه ٱلۡإِنجِيلَ فِيهِ هدٗى وَنور وَمصَدِّقٗا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ مِنَ ٱلتَّوۡرَىٰةِ وَهدٗى وَمَوۡعِظَةٗ لِّلۡمتَّقِينَ )
’’اور ہم نے ان کے بعد عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے ، اورہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور یہ کتاب بھی اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ پرہیز گاروں کیلئے سراسر ہدایت ونصیحت تھی([84]) ۔ ‘‘
یاد رہے کہ تورات وانجیل میں دوسرے احکام کے ساتھ ساتھ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺکی رسالت کی بشارت بھی موجود تھی، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
(ٱلَّذِينَ يَتَّبِعونَ ٱلرَّسولَ ٱلنَّبِيَّ ٱلۡأمِّيَّ ٱلَّذِي يَجِدونَه مَكۡتوبًا عِندَهمۡ فِي ٱلتَّوۡرَىٰةِ وَٱلۡإِنجِيلِ يَأۡمرهم بِٱلۡمَعۡروفِ وَيَنۡهَىٰهمۡ عَنِ ٱلۡمنكَرِ وَيحِلّ لَهم ٱلطَّيِّبَٰتِ وَيحَرِّم عَلَيۡهِم ٱلۡخَبَٰٓئِثَ وَيَضَع عَنۡهمۡ إِصۡرَهمۡ وَٱلۡأَغۡلَٰلَ ٱلَّتِي كَانَتۡ عَلَيۡهِمۡۚ ١٥٧)
’’جو لوگ ایسے رسول ، نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جس کو وہ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ انہیں نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں ، اور پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں ، اور نا پاک چیزوں کو ان پر حرام کرتے ہیں، اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں ([85])۔‘‘
۴۔ زبور : یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام پر نازل فرمایا ، اور اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے، لیکن اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام پر نازل فرمایا ،وہ زبور قطعی طور پر نہیں جو یہودیوں کے ہاتھوں تحریف کا شکار ہو چکی ہے۔ارشاد رب العزت ہے: (وَءَاتَيۡنَا دَاودَ زَبورا ١٦٣)
ترجمہ : ’’اور ہم نے داؤد ( 2 ) کو زبور عطا فرمائی ([86])۔‘‘
۵۔حضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ علیہما السلام کے صحیفے:
یہ وہ صحیفے ہیں جوکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کئے تھے، اور یہ تمام صحیفے مفقود ہیں ، اور ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(أَمۡ لَمۡ ينَبَّأۡ بِمَا فِي صحفِ موسَىٰ ٣٦ وَإِبۡرَٰهِيمَ ٱلَّذِي وَفَّىٰٓ ٣٧ أَلَّا تَزِر وَازِرَة وِزۡرَ أخۡرَىٰ٣٨ وَأَن لَّيۡسَ لِلۡإِنسَٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ٣٩ وَأَنَّ سَعۡيَه سَوۡفَ يرَىٰ ٤٠ ثمَّ يجۡزَىٰه ٱلۡجَزَآءَ ٱلۡأَوۡفَىٰ ٤١)
ترجمہ : ’’کیا اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ ( علیہ السلام ) اور وفادار ابراہیم(علیہ السلام) کے صحیفوں میں تھی کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش اس نے خود کی۔ اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائیگی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائیگا ([87])۔ ‘‘
اور فرمایا : (بَلۡ تؤۡثِرونَ ٱلۡحَيَوٰةَ ٱلدّنۡيَا ١٦ وَٱلۡأٓخِرَة خَيۡر وَأَبۡقَىٰٓ ١٧ إِنَّ هَٰذَا لَفِي ٱلصّحفِ ٱلۡأولَىٰ ١٨ صحفِ إِبۡرَٰهِيمَ وَموسَىٰ ١٩)
ترجمہ : ’’لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہت بہتر اور بہت بقاء والی ہے ، البتہ یہ باتیں پہلے صحیفوں میں بھی ہیں )یعنی( موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں([88])۔ ‘‘
چوتھا رکن:رسولوں پر ایمان لانا
۱۔ رسولوں پر ایمان لانا: اس پختہ اعتقاد کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغامات واحکامات پہنچانے کے لئے کچھ رسولوں )پیغمبروں(کو منتخب فرمایا ،اور جس شخص نے ان کی فرمانبرداری کی وہ ہدایت یافتہ ہوا ، اور جس نے ان کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جو کچھ نازل فرمایا، انہوں نے اسے مخلوق تک واضح طور پر پہنچا دیا، اس میں نہ تو انہوں نے کچھ تبدیلی کی اور نہ ہی کچھ چھپایا، اور انہوں نے امانت کو ادا کر دیا، انہوں نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کا حق ادا کر دیا، اور لوگوں پر حجت قائم کر دی۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام میں سے جن کے نام ہمارے لئے ذکر کیے ہیں ان پر ، اور جن کے نام ذکر نہیں کیے ان پر بھی ایمان لانا ہم پر لازم ہے۔
۱۔ حقیقتِ نبوت
خالق اور مخلوق کے درمیان خالق کی شریعت کو پہنچانے کا جو واسطہ ہے اسے نبوت کہا جاتا ہے،اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے، اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے اس کیلئے منتخب فرمالیتا ہے، انتخاب کرنے کا یہ اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔
ارشاد ربانی ہے: (ٱللَّه يَصۡطَفِي مِنَ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ رسلٗاوَمِنَ ٱلنَّاسِۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعۢ بَصِير )٧٥
ترجمہ :’’فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ چن لیتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والا ، دیکھنے والا ہے([89])۔‘‘
اور نبوت وہبی (عطائی) ہوتی ہے کسبی نہیں، بایں معنی کہ اسے کثرتِ عبادت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ نبی کے اختیار یا طلب کرنے سے ملتی ہے، بلکہ یہ تو درحقیقت ایک انتخاب ہے جو کہ صرف اللہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ٱللَّه يَجۡتَبِيٓ إِلَيۡهِ مَن يَشَآء وَيَهۡدِيٓ إِلَيۡهِ مَن ينِيب ١٣)
ترجمہ’’اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے ([90])۔‘‘
۲۔ رسولوں کی بعثت میں حکمت
اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مختلف حکمتوں کے پیش نظر مبعوث فرمایا ، ان میں سے چند حکمتیں یہ ہیں:
۱۔ انسانوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت پر لگانا،اور بندگئی مخلوق کی غلامی کا طوق اتار کر عبادت رب العباد کی آزادی عطا کرنا، اوراس عظیم مقصد کی یاددہانی کروانا جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے، اور وہ اس کی عبادت اور وحدانیت ہے ۔
ارشاد ربانی ہے: (وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِي كلِّ أمَّة رَّسولًا أَنِ ٱعۡبدواْ ٱللَّهَ وَٱجۡتَنِبواْ ٱلطَّٰغوتَۖ )٣٦
ترجمہ :’’اور یقیناًہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو)صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام باطل معبودوں سے بچو ([91])۔‘‘
۲۔رسولوں کو بھیج کر لوگوں پر حجت قائم کرنا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
(رّسلا مّبَشِّرِينَ وَمنذِرِينَ لِئَلَّا يَكونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حجَّةۢ بَعۡدَ ٱلرّسلِۚ وَكَانَ ٱللَّه عَزِيزًا حَكِيما ١٦٥ )
ترجمہ : ’’ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہ رہ جائے، اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے([92])۔‘‘
۳۔بعض غیبی امور کو بیان کرنا ، جن کا ادراک لوگ اپنی عقلوں سے نہیں کر سکتے ، مثلا اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات، فرشتے، قیامت کے دن سے پہلے واقع ہونے والے امور ، روزِ قیامت ، حساب وکتاب ، جنت ودوزخ وغیرہ۔
۴۔رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امتوں کے سامنے زندگی گذارنے کا ایک بہترین نمونہ پیش کریں ۔
فرمان الٰہی ہے: (أوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهۖ فَبِهدَىٰهم ٱقۡتَدِهۡۗ ٩٠)
ترجمہ : ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے پس آپ بھی انہیں کے راستے کی پیروی کیجئے([93])۔‘‘
اور فرمایا:
(لَقَدۡ كَانَ لَكمۡ فِيهِمۡ أسۡوَةٌ حَسَنَة٦)
ترجمہ:’’یقیناًتمہارے لئے ان لوگوں میں بہترین نمونہ ہے([94])۔‘‘
۵۔ لوگوں کے نفوس کی اصلاح،اور ان کا تزکیہ کرنا، اور ہر اس چیز سے ڈرانا جو انہیں ہلاک کرنے والی ہے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: (هوَ ٱلَّذِي بَعَثَ فِي ٱلۡأمِّيِّۧنَ رَسولا مِّنۡهمۡ يَتۡلواْ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتِهِۦ وَيزَكِّيهِمۡ وَيعَلِّمهم ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَإِن كَانواْ مِن قَبۡل لَفِي ضَلَٰل مّبِين )٢
’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے، اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے([95])۔‘‘
اورحضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:(إِنَّمَا بعِثْت لِأتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأخْلاَقِ)
یعنی ’’میں یقیناًاچھے اور پاکیزہ اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں([96])۔‘‘
۳۔ رسولوں کی ذمہ داریاں
انبیاء ورسل علیہم السلام کو بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۱۔ امورِ شریعت کی تبلیغ کرنا اور لوگوں کو غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلانا۔
ارشاد ربانی ہے: (ٱلَّذِينَ يبَلِّغونَ رِسَٰلَٰتِ ٱللَّهِ وَيَخۡشَوۡنَه وَلَا يَخۡشَوۡنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبا ٣٩ )
ترجمہ : ’’یہ سب ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ حساب لینے کیلئے کافی ہے([97]) ۔‘‘
۲۔ جو دین نازل کیا گیا ہے اس کی وضاحت کرنا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: (وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهمۡ يَتَفَكَّرونَ )٤٤
ترجمہ : ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (کتاب) کو اتارا تاکہ لوگوں کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں([98])۔‘‘
۳۔امت کو برائی سے ڈرانا، ان کی خیر وبھلائی کی طرف راہنمائی کرنا، ان کو ثواب کی بشارت دینا اور سزا سے ڈرانا۔
فرمان الٰہی ہے: (رّسلا مّبَشِّرِينَ وَمنذِرِينَ١٦٥ )
ترجمہ : ’’ہم نے رسولوں کو خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا ([99])۔‘‘
۴۔اقوال وافعال میں پاکیزہ نمونہ اور اسوۂ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح کرنا۔
۵۔ لوگوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی شریعت کا نفاذ اور اس کی عملی تطبیق کرنا۔
۶۔ قیامت کے دن رسولوں کا اپنی امتوں پر گواہی دینا کہ انہوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کا پیغام واضح طور پرپہنچادیا تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَكَيۡفَ إِذَا جِئۡنَا مِن كلِّ أمَّةِۢ بِشَهِيد وَجِئۡنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰٓؤلَآءِ شَهِيدٗا٤١)
ترجمہ : ’’پس اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے ، اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے([100])۔‘‘
۴۔تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کادین اسلام ہی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلۡإِسۡلَٰمۗ)١٩
ترجمہ : ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہی ہے([101])۔‘‘
اورتمام انبیاء علیہم السلام ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے اور غیر اللہ کی عبادت چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے، اگرچہ ان کی شریعتیں اور احکام مختلف تھے لیکن وہ سب کے سب ایک اساس وبنیاد پر متفق تھے جو کہ توحید ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : (اَلأنْبِیَاء إِخْوَۃ لِعَلاَّتٍ أمَّهاتهمْ شَتّٰی وَدِیْنهم وَاحِدٌ)
یعنی ’’تمام انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں(جن کا باپ ایک ہے اور ) مائیں الگ الگ ہیں، اور ان سب کا دین ایک ہے ([102])۔‘‘
۵۔تمام رسول بشر ہیں اور انہیں علم غیب بھی نہیں ہے
علم غیب اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہے نہ کہ انبیاء علیہم السلام کی صفات میں سے، اس لئے کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی تھے ،وہ کھاتے بھی تھے ، پیتے بھی تھے ، شادی بھی کرتے تھے، سوتے بھی تھے ، بیمار بھی ہوتے تھے اور وہ تھکاوٹ بھی محسوس کرتے تھے ۔
فرمان الٰہی ہے: (وَمَآ أَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ ٱلۡمرۡسَلِينَ إِلَّآ إِنَّهمۡ لَيَأۡكلونَ ٱلطَّعَامَ وَيَمۡشونَ فِي ٱلۡأَسۡوَاقِۗ )٢٠
ترجمہ : ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے تھے([103])۔‘‘
اور فرمایا: (وَلَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رسلا مِّن قَبۡلِكَ وَجَعَلۡنَا لَهمۡ أَزۡوَٰجا وَذرِّيَّة) ٣٨ترجمہ : ’’ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ([104])۔‘‘
اور انہیں بھی انسانوں کی طرح خوشی وغمی، مشقت وآسانی اور ہشاش وبشاش ہونا جیسے عوارض لاحق ہوتے تھے۔
اور انبیاء علیہم السلام علم غیب بھی نہیں رکھتے بجز اس کے کہ جس کی اللہ تعالیٰ ان کو خبر دے۔
فرمان الٰہی ہے: (عالِم ٱلۡغَيۡبِ فَلَا يظۡهِر عَلَىٰ غَيۡبِهِۦٓ أَحَدًا ٢٦ إِلَّا مَنِ ٱرۡتَضَىٰ مِن رَّسول فَإِنَّه يَسۡلك مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ رَصَدا) ٢٧ ترجمہ:’’وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے([105])۔ ‘‘
۶۔ رسولوں کا معصوم ہونا
اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اس کی تبلیغ کیلئے کائنات میں سے افضل، اورپیدائشی اور اخلاقی اعتبار سے اکمل انسانوں کا انتخاب کیا ، اور انہیں کبیرہ گناہوں سے معصوم اور عیوب ونقائص سے مبرا بنایا ، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کو اپنی امّتوں تک پہنچائیں، لہذا وہ باتفاق امت تبلیغِ دین میں معصوم ہیں۔
ارشاد ربانی ہے: (يَٰٓأَيّهَا ٱلرَّسول بَلِّغۡ مَآ أنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَهۚ وَٱللَّه يَعۡصِمكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ) ٦٧
ترجمہ : ’’اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچادیجئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالیٰ ہی لوگوں سے بچاتا ہے ([106])۔‘‘
اور فرمایا:(ٱلَّذِينَ يبَلِّغونَ رِسَٰلَٰتِ ٱللَّهِ وَيَخۡشَوۡنَه وَلَا يَخۡشَوۡنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ )٣٩
ترجمہ : ’’یہ سب ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اسی سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے([107])۔ ‘‘
اور فرمایا: (لِّيَعۡلَمَ أَن قَدۡ أَبۡلَغواْ رِسَٰلَٰتِ رَبِّهِمۡ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيۡهِمۡ وَأَحۡصَىٰ كلَّ شَيۡءٍ عَدَدَۢا ٢٨)
’’تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچادیا ہے ، اور اس نے ان کے آس پاس (کی تمام چیزوں)کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے([108])۔‘‘
اور جب کبھی کسی نبی سے کوئی معمولی غلطی سر زد ہوئی ، جس کا تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتاتھا ، اللہ تعالیٰ نے اسے ان کیلئے بیان فرمادیا، اور انہوں نے اس سے فوراً توبہ کرلی اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیا ، چنانچہ وہ معمولی غلطیاں ایسے ہوگئیں کہ گویا ان کا وجود ہی نہ تھا۔
۷۔انبیاء ورسل علیہم السلام کی تعداد اور سب سے افضل رسول
یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد ایک لا کھ اورچوبیس ہزار ہے ، ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ؟ انبیاء کی تعداد کتنی ہے ؟
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:(مِائَة أَلْفٍ وَأَرْبَعَةٌ وَعِشْرونَ أَلْفًا، الرّسل مِنْ ذَلِكَ ثَلَاثمِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ)
ترجمہ : ’’ان کی تعداد ایک لاکھ اور چوبیس ہزار ہے ، ان میں سے تین سو پندرہ رسول تھے ([109])۔‘‘
ان میں سے بعض کے واقعات اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہمارے لئے بیان فرمائے ہیں اور بعض کے واقعات بیان نہیں کیے ، جن انبیاءعلیہم السلام کے نام اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمائے ہیں، ان کی تعداد پچیس ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَرسلا قَدۡ قَصَصۡنَٰهمۡ عَلَيۡكَ مِن قَبۡل وَرسلا لَّمۡ نَقۡصصۡهمۡ عَلَيۡكَۚ )١٦٤
ترجمہ :’’اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں کیے ([110])۔‘‘
اور فرمایا: (وَتِلۡكَ حجَّتنَآ ءَاتَيۡنَٰهَآ إِبۡرَٰهِيمَ عَلَىٰ قَوۡمِهِۦۚ نَرۡفَع دَرَجَٰت مَّن نَّشَآءۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيم ٨٣ وَوَهَبۡنَا لَهٓ إِسۡحَٰقَ وَيَعۡقوبَۚ كلًّا هَدَيۡنَاۚ وَنوحًا هَدَيۡنَا مِن قَبۡلۖ وَمِن ذرِّيَّتِهِۦ دَاودَ وَسلَيۡمَٰنَ وَأَيّوبَ وَيوسفَ وَموسَىٰ وَهَٰرونَۚ وَكَذَٰلِكَ نَجۡزِي ٱلۡمحۡسِنِينَ ٨٤وَزَكَرِيَّا وَيَحۡيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلۡيَاسَۖ كلّ مِّنَ ٱلصَّٰلِحِينَ ٨٥وَإِسۡمَٰعِيلَ وَٱلۡيَسَعَ وَيونسَ وَلوطاۚ وَكلّا فَضَّلۡنَا عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ ٨٦ وَمِنۡ ءَابَآئِهِمۡ وَذرِّيَّٰتِهِمۡ وَإِخۡوَٰنِهِمۡۖ وَٱجۡتَبَيۡنَٰهمۡ وَهَدَيۡنَٰهمۡ إِلَىٰ صِرَٰط مّسۡتَقِيم ) ٨٧ترجمہ :’’یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی، ہم جس کو چاہتے ہیں اس کے مرتبے بڑھادیتے ہیں، بے شک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے، اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے، ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت دی اور ان کی اولاد میں سے داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں ،اور زکریا کو اور یحییٰ کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے، اور اسمٰعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط (علیہم السلام) کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی، اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو ، اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی([111])۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری عطا کی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَقَدۡ فَضَّلۡنَا بَعۡضَ ٱلنَّبِيِّۧنَ عَلَىٰ بَعۡضۖ وَءَاتَيۡنَا دَاودَ زَبورا ٥٥ )
ترجمہ :’’ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے([112])۔‘‘
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(تِلۡكَ ٱلرّسل فَضَّلۡنَا بَعۡضَهمۡ عَلَىٰ بَعۡضۘ)٢٥٣
ترجمہ : ’’یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ([113])۔‘‘
اور ان میں سے افضل وہ رسول ہیں جو اولو العزم (عزم والے، عالی ہمت) کہلاتے ہیں اور وہ یہ ہیں: حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ۔
فرمان الٰہی ہے:
(فَٱصۡبِرۡ كَمَا صَبَرَ أوْلواْ ٱلۡعَزۡمِ مِنَ ٱلرّسلِ)٣٥
’’پس (اے پیغمبر!) آپ ایسا صبر کریں جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا ([114])۔‘‘
اور فرمایا:
( وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّۧنَ مِيثَٰقَهمۡ وَمِنكَ وَمِن نّوح وَإِبۡرَٰهِيمَ وَموسَىٰ وَعِيسَى ٱبۡنِ مَرۡيَمَۖ وَأَخَذۡنَا مِنۡهم مِّيثَٰقًا غَلِيظا ٧)
ترجمہ:’’جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیااور (بالخصوص)آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہم السلام) سے اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا ([115])۔‘‘
اور حضرت محمدﷺ سب رسولوں میں سے افضل رسول ہیں اور وہ خاتم النبیین، امام المتقین اور بنی آدم کے سردارہیں اور جب تمام نبی اکٹھے ہوں تو وہ ان کے امام اور جب وہ تشریف لائیں تو وہ ان کے خطیب ہیں، اور وہی صاحب مقام محمود ہیں جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے سبھی رشک کریں گے، اور آپ ہی صاحب لواء الحمد (جن کے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا) اور صاحب حوض ہیں جہاں پر لوگ وارد ہونگے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دین کی سب سے افضل شریعت دے کر مبعوث فرمایا، اور آپ کی امت کو جو لوگوں کے لئے بھیجی گئی، بہترین امت بنایا، آپ کو اور آپ کی امت کو فضائل اور بہترین خوبیوں سے مزین فرمایا جو کہ آپ کو اور آپ کی امت کو سابقہ امتوں سے ممتاز کرتی ہیں، اور آپ کی امت دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخری امت ہے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھائی جانے والی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
(أَنَا سَیِّد وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَبِیَدِیْ لِوَاء الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَّبِیٍّ یَوْمئذٍ آدَم فَمَنْ سِوَاہ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائي یَوْمَ الْقِیَامَةِ)
ترجمہ :’’میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا ، اور میرے ہاتھ میں حمد کا عَلم ہوگا اور اس پر مجھے کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ جتنے بھی انبیاء علیہم السلام ہیں سب میرے جھنڈے تلے ہونگے([116]) ۔‘‘
پانچواں رکن:یوم آخرت پر ایمان لانا
دنیاوی زندگی کی انتہاء اور اس کے بعد ایک دوسرے جہاں میں داخل ہونے پر پختہ اعتقاد رکھنے کا نام ( ایمان بالیوم الآخر) ہے، جو موت سے شروع ہو کر قیامت کے آنے، پھر اٹھائے جانے، حشر نشر اور جزاء و سزااور لوگوں کے جنت یا جہنم میں داخل ہونے تک کو شامل ہے۔
آخرت پر ایمان لانا ان ارکان میں سے ایک ہے جن کے بغیر انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا، اور جو شخص ان میں سے کسی ایک کا انکار کرے وہ کافر ہوجاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَٰكِنَّ ٱلۡبِرَّ مَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلۡكِتَٰبِ وَٱلنَّبِيِّۧنَ )١٧٧
ترجمہ : ’’بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ، روزِ قیامت پر،فرشتوں پر،کتابوں پر اورنبیوں پر ایمان لائے([117])۔‘‘
یادر ہے کہ قیامت سے مراد وہ دن ہے جس دن لوگ اپنے رب کے حکم سے اپنی اپنی قبروں سے باہر نکلیں گے تا کہ ان کا حساب کیا جا سکے، چنانچہ نیکو کار کو انعام اور برے کو عذاب دیا جائے گا۔
ارشاد ربانی ہے: (يَوۡمَ يَخۡرجونَ مِنَ ٱلۡأَجۡدَاثِ سِرَاعا كَأَنَّهمۡ إِلَىٰ نصب يوفِضونَ )٤٣
ترجمہ : ’’جس دن وہ اپنی قبروں سے نکل کراس طرح دوڑے جا رہے ہونگے ، جیسے وہ اپنے بتوں کی طرف تیز تیز جارہے ہیں([118])۔ ‘‘
اوراس دن کو قرآن کریم میں ایک سے زائد ناموں سے ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱۔ یوم القیامۃ (قیامت کا دن)
ارشاد ربانی ہے: (لَآ أقۡسِم بِيَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِ) ١
ترجمہ : ’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی([119])۔‘‘
۲۔ القارعۃ )کھڑکھڑا دینے والی(
ارشاد ربانی ہے: (ٱلۡقَارِعَة ١ مَا ٱلۡقَارِعَة ٢)
ترجمہ : ’’کھڑکھڑا دینے والی، کیا ہے کھڑ کھڑا دینے والی ([120])۔ ‘‘
۳۔یوم الحساب )حساب کا دن(
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ ٱلَّذِينَ يَضِلّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ لَهمۡ عَذَاب شَدِيدۢ بِمَا نَسواْ يَوۡمَ ٱلۡحِسَابِ ٢٦)
ترجمہ : ’’یقیناًجو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلادیا ہے([121])۔‘
۴۔یوم الدین )جزاء کا دن(
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِنَّ ٱلۡفجَّارَ لَفِي جَحِيم ١٤ يَصۡلَوۡنَهَا يَوۡمَ ٱلدِّينِ ١٥)
ترجمہ : ’’اور یقیناًبدکار لوگ دوزخ میں ہونگے، وہ اس میں جزاء کے دن داخل ہونگے ([122])۔‘‘
۵۔ الطآمۃ (آفت)
ارشاد ربانی ہے: (فَإِذَا جَآءَتِ ٱلطَّآمَّة ٱلۡكبۡرَىٰ ٣٤ )
ترجمہ:’’پس جب وہ بڑی آفت (قیامت)آجائے گی ([123])۔‘‘
۶۔ الواقعۃ (واقع ہونے والی)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (إِذَا وَقَعَتِ ٱلۡوَاقِعَة ١ )
ترجمہ : ’’جب واقع ہونے والی )قیامت( واقع ہوجائے گی ([124])۔‘‘
۷۔الحاقۃ )ثابت ہونے والی(
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ٱلۡحَآقَّة ١ مَا ٱلۡحَآقَّة٢ )
ترجمہ:’’ثابت ہونے والی، ثابت ہونے والی کیا ہے؟ ([125])۔‘‘
۸۔الصاخۃ (کان بہرے کر دینے والی)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِذَا جَآءَتِ ٱلصَّآخَّة ٣٣ )
’’پس جب کان بہرے کر دینے والی )قیامت( آجائے گی([126])۔‘‘
۹۔ الغاشیۃ )چھپالینے والی(
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (هَلۡ أَتَىٰكَ حَدِيث ٱلۡغَٰشِيَةِ ١ )
ترجمہ : ’’کیا تیرے پاس چھپا لینے والی(قیامت)کی خبر پہنچی ہے([127])۔‘‘
یاد رہے کہ آخرت پر ایمان لانا دو طرح کا ہے: اجمالی وتفصیلی
اجمالی ایمان یہ ہے کہ ہم اس دن پر ایمان لائیں جس میں اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے اور بعد میں آنے والوں ، سب کو جمع کرے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا، پھر ایک گروہ جنت میں داخل ہوگا اور دوسرا جہنم میں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:(قلۡ إِنَّ ٱلۡأَوَّلِينَ وَٱلۡأٓخِرِينَ٤٩ لَمَجۡموعونَ إِلَىٰ مِيقَٰتِ يَوۡم مَّعۡلوم ٥٠)
ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجئے کہ یقیناًسب اگلے اور پچھلے ضرور ایک مقررہ دن کے وقت جمع کئے جائیں گے ([128])۔‘‘
تفصیلی ایمان:
موت کے بعد جتنی تفاصیل ہیں ان سب پر ایمان لانا، مثلا قبر کا عذاب اور اس کی نعمتیں ، صور میں پھونکنا ، دوبارہ زندہ ہونا ، حشر ، حساب اور جزاء وسزا ، حوض ، میزان ، پل صراط ، جنت ودوزخ …سب سے پہلے ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئیے کہ ہم سب کو اور پوری بنی نوع انسانیت کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور اللہ تعالی ٰکے سامنے پیش ہونا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
(زَعَمَ ٱلَّذِينَ كَفَروٓاْ أَن لَّن يبۡعَثواْۚ قلۡ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتبۡعَثنَّ ثمَّ لَتنَبَّؤنَّ بِمَا عَمِلۡتمۡۚ وَذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِير ٧ )
ترجمہ : ’’ کافروں کا خیال یہ ہے کہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ، آپ کہہ دیجئے ! کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تمھیں ضرور بالضرور اٹھایا جائے گا ، پھر جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی تمھیں خبر دی جائے گی ، اور یہ کام اللہ پر انتہائی آسان ہے ([129])۔ ‘‘
قربِ قیامت
پھر ہمیں اس بات پر بھی پختہ یقین ہونا چاہئیے کہ قیامت انتہائی قریب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (تَعۡرج ٱلۡمَلَٰٓئِكَة وَٱلرّوح إِلَيۡهِ فِي يَوۡم كَانَ مِقۡدَاره خَمۡسِينَ أَلۡفَ سَنَة ٤ فَٱصۡبِرۡ صَبۡرا جَمِيلًا ٥ إِنَّهمۡ يَرَوۡنَه بَعِيدا ٦ وَنَرَىٰه قَرِيبا ٧)
ترجمہ : ’’ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھ کر جاتے ہیں ، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ، پس آپ اچھی طرح صبر کریں ، بے شک یہ اس کو دور سمجھ رہے ہیں ، اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں ([130])۔ ‘‘
اورحضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
(بعِثْت أَنَا وَالسَّاعةکَهَاتَیْنِ وَضَمَّ السَّبَّابةَ وَالْوسْطیٰ)
یعنی آپ ﷺ نے انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کرفرمایا : ’’میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں ( جیسے یہ دو انگلیاں ہیں )([131])۔‘‘
اور اس حدیث کا ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا ، بلکہ میرے بعد قیامت ہی آئے گی ، جیسا کہ انگشتِ شہادت کے بعد درمیان والی انگلی ہی ہے ، اوران دونوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے ۔
قیامت کب آئے گی ؟
قیامت کا وقت صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (يَسَۡٔلونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مرۡسَىٰهَاۖ قلۡ إِنَّمَا عِلۡمهَا عِندَ رَبِّيۖ لَا يجَلِّيهَا لِوَقۡتِهَآ إِلَّا هوَۚ ثَقلَتۡ فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ لَا تَأۡتِيكمۡ إِلَّا بَغۡتَةٗۗ يَسَۡٔلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنۡهَاۖ قلۡ إِنَّمَا عِلۡمهَا عِندَ ٱللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمونَ )١٨٧
ترجمہ : ’’یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا ؟ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم تو صرف میرے رب ہی کے پاس ہے ، اسے اس کے وقت پر صرف وہی ظاہر کرے گا ، وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری ( حادثہ ) ہو گا ، وہ تم پر اچانک آ پڑے گی ، وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کر چکے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ([132])۔ ‘‘
اور فرمایا : (يَسَۡٔلونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مرۡسَىٰهَا ٤٢ فِيمَ أَنتَ مِن ذِكۡرَىٰهَآ ٤٣ إِلَىٰ رَبِّكَ منتَهَىٰهَآ ٤٤ إِنَّمَآ أَنتَ منذِرمَن يَخۡشَىٰهَا ٤٥ كَأَنَّهمۡ يَوۡمَ يَرَوۡنَهَا لَمۡ يَلۡبَثوٓاْ إِلَّا عَشِيَّةً أَوۡ ضحَىٰهَا )٤٦
ترجمہ : ’’وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے وقوع پذیر ہونے کا وقت کونسا ہے ؟ اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق ہے ؟ اس کے علم کی انتہاتو آپ کے رب کی جانب ہے ، آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں ان لوگوں کو جو اس سے ڈرتے ہیں ، جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہو گا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں ) رہے ہیں ([133])۔ ‘‘
اور حدیثِ جبریل میں ہے کہ : ’’ ۔۔۔ حضرت جبریل ( علیہ السلام ) نے کہا : مجھے قیامت کے متعلق بتائیں ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : ( مَا الْمَسْؤوْل عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائل)
ترجمہ : ’’ جس سے اس کے متعلق سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ([134])۔‘‘
کائنات کا خاتمہ …صور کا پھونکنا اور کائنات کا بے ہوش ہونا
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ترجمہ :’’صور میں دو مرتبہ پھونکا جائے گا اور دونوں کے درمیان چالیس (!) کا فاصلہ ہو گا ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوہریرہ ؓسے پوچھا : چالیس دن کا ؟
انھوں نے کہا : میں انکار کرتا ہوں ۔
انھوں نے کہا : چالیس ماہ کا ؟
انھوں نے کہا : میں انکار کرتا ہوں ۔
انھوں نے کہا : چالیس سال کا ؟
انھوں نے کہا: میں انکار کرتا ہوں ۔
پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرے گا جس سے وہ یوں اگیں گے جیسے کوئی سبزی اگتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا : ’’انسان کا پورا جسم بوسیدہ ہو چکا ہو گا سوائے اس کی ایک ہڈی کے ، جسے زمین کبھی نہیں کھائے گی ، اور وہ ہے ریڑھ کی ہڈی ، اور اسی سے مخلوق کے ( مختلف اجزاء کو ) قیامت کے دن جوڑا جائے گا ([135])۔ ‘‘
اس حدیث میں یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے( چالیس ) کی تحدید کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے مراد چالیس دن ہیں یا چالیس ماہ ، یا چالیس سال ! اور ہو سکتا ہے کہ انھیں اس کا علم ہی نہ ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں اس کا علم ہو لیکن انھوں نے اسے بیان کرنا مناسب نہ سمجھا ہو کیونکہ ایک تو اس وقت ابھی اس کی ضرورت ہی نہ تھی اور اس کے متعلق کچھ بتانا قبل از وقت تھا، اور دوسرا اس لئے کہ یہ بات ان ضروری مسائل میں سے نہ تھی کہ جن کی تبلیغ کرنا ان پر واجب تھا . واللہ اعلم ۔
فرمان الہی ہے : (وَنفِخَ فِي ٱلصّورِ فَصَعِقَ مَن فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَن فِي ٱلۡأَرۡضِ إِلَّا مَن شَآءَ ٱللَّهۖ ثمَّ نفِخَ فِيهِ أخۡرَىٰ فَإِذَا همۡ قِيَام يَنظرونَ٦٨)
ترجمہ : ’’اور صور پھونک دیا جائے گا ، پھر آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے ، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ([136])۔‘‘
(إِلاَّ مَنْ شَاءَ اللّه ) سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بے ہوش ہو کر گرنے سے مستثنیٰ کرے گا ، اور وہ کون لوگ ہونگے ؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ، ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرا یہودی تھا ، چنانچہ مسلمان نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے محمد (ﷺ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ، اس کے جواب میں یہودی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ، یہ سن کر مسلمان غضبناک ہو گیا ، اور اس نے یہودی کے چہرے پر ایک طمانچہ دے مارا ، چنانچہ یہودی رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے مسلمان کی شکایت کی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(لاَ تخَیِّروْنِیْ عَلٰی موْسٰی،فَإِنَّ النَّاسَ یَصْعَقوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ،فَأَکوْن أَوَّلَ مَنْ یّفِیْق، فَإِذَا موْسٰی بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِیْ أَکَانَ موْسٰی فِیْمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِیْ، أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ )
ترجمہ : ’’ تم مجھے موسیٰ ( علیہ السلام ) پر فضیلت نہ دو ، کیونکہ قیامت کے روز لوگ بے ہوش کر گر پڑیں گے ، چنانچہ میں سب سے پہلا شخص ہو نگا جسے ہوش آئے گا ، اور میں دیکھوں گا کہ موسی ( علیہ السلام ) عرش کی ایک جانب کو پکڑے ہوئے ہیں ، تو مجھے نہیں معلوم کہ وہ بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہونگے اور مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہو گا ، یا انہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل کرے گا جو بے ہوش کر گرنے سے مستثنیٰ ہونگے([137])۔‘‘
صور میں دوبارہ پھونکا جائے گا
فرمانِ الہی ہے : (وَنفِخَ فِي ٱلصّورِ فَإِذَا هم مِّنَ ٱلۡأَجۡدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمۡ يَنسِلونَ ٥١)
ترجمہ : ’’ صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز ) چلنے لگیں گے([138])۔‘‘
اس آیت میں صور میں پھونکے جانے سے مراد دوسری مرتبہ پھونکا جانا ہے جس کے بعد لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہو ں گے۔
اور مجاہد ؒ کہتے ہیں : کافروں کو قیامت سے پہلے ایک بار ایسی نیند آئے گی کہ جس میں انھیں نیند کی لذت محسوس ہو گی ، پھر اچانک ایک چیخ کی آواز آئے گی ، جس سے وہ شدید گھبراہٹ اور خوف کی حالت میں اٹھ کھڑے ہو ں گے اور ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ث(مَّ نفِخَ فِيهِ أخۡرَىٰ فَإِذَا همۡ قِيَام يَنظرونَ٦٨)
ترجمہ :’’پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے([139]) ۔ ‘‘
اور سورتِ یس کی اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ کفار کی حالت کو بیان کرتے ہوئے فرماتاہے :( قَالواْ يَٰوَيۡلَنَا مَنۢ بَعَثَنَا مِن مَّرۡقَدِنَاۜ)٥٢ ترجمہ : ’’ کہیں گے ہائے ہائے ! ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے اٹھادیا ([140])۔ ‘‘
لہذاان آیات سے ثابت ہوا کہ صور میں دو مرتبہ پھونکا جائے گا : ایک مرتبہ پھونکے جانے سے لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے ، یعنی ان پر موت آجائے گی ، پھر دوسری مرتبہ پھونکے جانے سے وہ اٹھ کھڑے ہو ں گے۔
ہر بندہ اپنے آخری عمل پر اٹھایا جائے گا
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ( یبْعَث کلّ عَبْدٍ عَلى مَا مَاتَ عَلَیْهِ )
ترجمہ : ’’ہر بندے کو اس عمل پر اٹھایا جائے گاجس پر اس کی موت آئی ([141])۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
(إِذَا أَرَادَ اللّه بِقَوْمٍ عَذَابًا أَصَابَ الْعَذَابَ مَنْ کَانَ فِیْهِمْ ، ثمَّ بعِثوْا عَلٰی نِیَّاتِهِمْ۔ وفی لفظ البخاری : عَلٰی أَعْمَالِهِمْ )
ترجمہ : ’’اللہ تعالی جب کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس قوم کے تمام افراد کو عذاب پہنچتا ہے ، پھر انھیں ان کی نیتوں پر( اور ایک روایت میں ہے :ان کے اعمال پر ) اٹھایا جائے گا ([142])۔ ‘‘
حشر کی حقیقت
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : (یحْشَر النَّاس عَلٰی ثَلاَثِ طَرَائقَ:رَاغِبِیْنَ وَرَاهِبِیْنَ، وَاثْنَانِ عَلٰی بَعِیْرٍ ، وَثَلاثةٌ عَلٰی بَعِیْرٍ ، وَأربعةٌ عَلٰی بَعِیْرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلٰی بَعِیْرٍ ، وَیَحْشر بَقِیَّتَہم النَّار تَبِیْت مَعَہمْ حَیْث بَاتوْا ، وَتَقِیْل مَعَہمْ حَیْث قَالوْا ، وَتصْبِح مَعَہمْ حَیْث أَصْبَحوْا ، وَتمْسِیْ مَعَہمْ حَیْث أَمْسَوْا )
ترحمہ : ’’ لوگوں کو تین گروہوں میں اکٹھا کیا جائے گا : ایک گروہ امید رکھنے والے اور ڈرنے والوں کا ہو گا ، دوسرے گروہ میں دو افراد کے پاس ایک اونٹ ہو گا ، اور تین کے پاس ایک اونٹ ہو گا ، اور چار کے پاس ایک اونٹ ہو گا ، اور دس کے پاس ایک اونٹ ہو گا ، اور باقیوں (تیسرے گروہ کے لوگوں )کو آگ اکٹھا کرے گی ، اوروہ ان کے ساتھ رات گذارے گی جہاں وہ رات گذاریں گے ، اور ان کے ساتھ دوپہر کا قیلولہ کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے ، اور ان کے ساتھ صبح کرے گی جہاں وہ صبح کریں گے ، اور ان کے ساتھ شام کرے گی جہاں وہ شام کریں گے ([143])۔ ‘‘ (یعنی ہر وقت ان کے ساتھ رہے گی ) ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں پہلے گروہ سے مراد نیکو کار لوگوں کا گروہ ، اور دوسرے گروہ سے مرادوہ لوگ ہوں جنھوں نے نیکیاں بھی کی ہو نگی اور برائیاں بھی ، اور تیسرے گروہ سے مراد کفار کا گروہ ہو! واللہ اعلم
اور حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کافروں کو ان کے چہروں کے بل کیسے جمع کیا جائے گا ؟
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :( أَلَيْسَ الَّذِي أَمْشَاه عَلَى رِجْلَيْهِ فِي الدّنْيَا قَادِرًا عَلَى أَنْ يمْشِيَه عَلَى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟)
ترجمہ : ’’ کیا وہ ذات جس نے اسے پاؤں کے بل چلایا ، وہ اسے قیامت کے روز چہرے کے بل چلانے پر قادر نہیں ؟ ([144])۔ ‘‘
اور حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
(يحْشَر النَّاس يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ كَقرْصَةِ النَّقِيِّ لَيْسَ فِيهَا عَلَمٌ لِأَحَدٍ )یعنی ’’لوگوں کو روزِ قیامت ایک ایسی زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی مانند سفید سرخی مائل ہو گی اور اس پر کسی ( عمارت ، مکان اور مینار وغیرہ ) کا نام ونشان نہیں ہو گا ([145])۔‘‘(یعنی زمین چٹیل میدان ہو گی ) ۔
لوگوں کو ننگے بدن ، ننگے پاؤں اور غیر مختون حالت میں اٹھایا جائے گا
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ ایک بار ہم میں کھڑے ہوئے اور ہمیں وعظ کرتے ہوئے فرمایا :
ترجمہ ’’اے لوگو! تمھیں اللہ کی طرف ننگے بدن ، ننگے پاؤں اور غیر مختون حالت میں جمع کیا جائے گا ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : كَمَا بَدَأۡنَآ أَوَّلَ خَلۡق نّعِيدهۚ وَعۡدًا عَلَيۡنَآۚ إِنَّا كنَّا فَٰعِلِينَ١٠٤
ترجمہ : ’’جیسا کہ ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم اسے دورباہ لوٹائیں گے ، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے([146]) ۔ ‘‘
پھر آپ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! قیامت کے روز لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا ، اور خبردار ! میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا ، پھر انھیں بائیں طرف لے جایا جائے گا ، تو میں کہوں گا :اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں ، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آپ کو نہیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد ( دین میں ) کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کی تھیں ، لہذا میں بالکل اسی طرح کہوں گا جیسا کہ نیک بندے (حضرت عیسی علیہ السلام ) نے کہا تھا :
(وَكنت عَلَيۡهِمۡ شَهِيدٗا مَّا دمۡت فِيهِمۡۖ فَلَمَّا تَوَفَّيۡتَنِي كنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيۡهِمۡۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كلِّ شَيۡء شَهِيدٌ ١١٧ إِن تعَذِّبۡهمۡ فَإِنَّهمۡ عِبَادكَۖ وَإِن تَغۡفِرۡ لَهمۡ فَإِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيز ٱلۡحَكِيم ١١٨)
ترجمہ : ’’میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا ، پھر جب تو نے مجھے فوت کردیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا ، اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے ، اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں ، اور اگر ان کو معاف فرما دے تو تو غالب ہے ، حکمت والا ہے ([147])۔ ‘‘
تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ، انھوں نے دین سے منہ موڑ لیا تھا اور وہ مرتد ہو گئے تھے ([148])۔ ‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (يحْشَر النَّاس يَوْمَ الْقِيَامَةِ حفَاةً، عرَاةً، غرْلًا” قلْت: يَا رَسول اللَّهِ !النِّسَاء وَالرِّجَال جَمِيعًا يَنْظر بَعْضهمْ إِلَى بَعْضٍ؟ قَالَ: “يَا عَائِشَة! الْأَمْر أَشَدّ مِنْ أَنْ يَنْظرَ بَعْضہمْ لِبَعْضٍ)
ترجمہ :’’قیامت کے دن لوگوں کوننگے پاؤں ، ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کیا جائے گا ‘‘میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مرداور عورتیں سب اکٹھے ہونگے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہو نگے ؟
آپ ﷺ نے جواب دیا : ’’ اے عائشہ ! اس روز کا معاملہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے کہیں زیادہ سخت ہو گا([149]) ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے گفتگو کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا
حضرت عدی بن حاتم ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : (مَا مِنْكمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ سَيكَلِّمه اللّه، لَيْسَ بَيْنَه وَبَيْنَه ترْجمَانٌ، فَيَنْظر أَيْمَنَ مِنْه فَلاَ يَرَى إِلاَّ مَا قَدَّمَ، وَيَنْظر أَشْأَمَ مِنْه فَلاَ يَرَى إِلاَّ مَا قَدَّمَ، وَيَنْظر بَيْنَ يَدَيْهِ فَلاَ يَرَى إِلاَّ النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ،وفی روايةٍ : وَلَوْ بِکَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ)
ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر شخص سے عنقریب ہم کلام ہو گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا ،جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھے گا تو اسے اپنے عمل ہی نظر آئیں گے، اور اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو ادھر بھی اسے اپنے عمل ہی نظر آئیں گے ، اور اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، لہذا تم جہنم سے بچو اگرچہ کھجورکے آدھے حصے کا صدقہ کرکے ہی ۔ اوردوسری روایت میں ہے : اگرچہ ایک اچھا کلمہ کہہ کر ہی ([150]) ۔‘‘
قیامت کے روز لوگوں کے درمیان قصاص
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا :(لَتؤَدَّنَّ الْحقوق إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ)
ترجمہ : ’’ تم قیامت کے روز حق والوں کے حقوق ضرور بالضرور ادا کرو گے، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کیلئے بھی بدلہ لیا جائے گا ([151]) ۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :(مَنْ كَانَتْ لَه مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْه مِنْه الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَه عَمَلٌ صَالِحٌ أخِذَ مِنْه بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكنْ لَه حَسَنَاتٌ أخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحمِلَ عَلَيْهِ)
ترجمہ : ’’ جس کسی کے پاس اس کے بھائی کا حق ہو ‘ اس کی عزت سے متعلق ہویا کسی اور چیز سے ‘ تو وہ آج ہی اس سے آزاد ہو جائے ( یعنی یا تو وہ حق اسے ادا کردے یا اسے اس سے معاف کروا لے ) ، اس دن کے آنے سے پہلے جب نہ دینار ہو گا نہ درہم ، اور اگر اس کے پاس نیک اعمال ہو نگے تو اس کے حق کے بقدر اس سے نیک اعمال لے لئے جائیں گے ، اور اگر نیکیاں نہیں ہو نگی تو صاحبِ حق کی بعض برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی ([152])۔ ‘‘
حقوق العباد کے بارے میں پوچھ گچھ
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
(أَتَدْرونَ مَا الْمفْلِس؟ )
یعنی ’’ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے ؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا :(الْمفْلِس فِينَا مَنْ لا دِرْهَمَ لَه وَلا مَتَاعَ )یعنی ’’ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی اور ساز وسامان ۔ ‘‘
آپ ﷺنے فرمایا : (إِنَّ الْمفْلِسَ مِنْ أمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاته قَبْلَ أَنْ يقْضَى مَا عَلَيْهِ أخِذَ مِنْ خَطَايَاهمْ فَطرِحَتْ عَلَيْهِ ثمَّ طرِحَ فِي النَّارِ)
ترجمہ : ’’ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزے ، زکاۃ لیکر آئے گا ، اور اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، اور کسی پر بہتان باندھا ہو گا ، اور کسی کا مال کھالیا ہو گا ، اور کسی کا خون بہایا ہو گا ، اور کسی کو مارا ہو گا ، لہذا ان میں سے ہر ایک کو اس کے حق کے بقدر اس کی نیکیاں دی جائیں گی ، اور اگر ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ لیکر اس پر ڈال دئیے جائیں گے ، اورپھر اسے جہنم رسید کردیا جائے گا ([153]) ۔ ‘‘
نبی کریم ﷺکا حوض
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو قیامت کے دن حوضِ کوثر عطا کیا جائے گا ، جس کے اوصاف آپ ﷺنے اپنی احادیث مبارکہ میں یوں بیان فرمائے ہیں :
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، اچانک آپ پر اونگھ طاری ہو گئی ، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا ، ہم نے پوچھا : آپ کیوں مسکراررہے ہیں ؟
آپ نے فرمایا : ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے ، پھر آپ نے پڑھا :(بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ -إِنَّآ أَعۡطَيۡنَٰكَ ٱلۡكَوۡثَرَ ١ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنۡحَرۡ ٢ إِنَّ شَانِئَكَ هوَ ٱلۡأَبۡتَر ٣)
پھر آپ نے فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ الکوثر کیا ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، اس پر خیرِ کثیر موجود ہے ، اور وہ ایسا حوض ہے جس پر میری امت کے لوگ قیامت کے دن آئیں گے ، اس کے برتنوں کی تعداد ستاروں کے برابر ہے ، پھر کچھ لوگوں کو پیچھے دھکیلا جائے گا ، تو میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں ، تو کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئے کام ایجاد کئے تھے ([154])۔ ‘‘
اورحضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! حوض کے برتن کیا ہیں ؟ تو آپ ﷺنے فرمایا : (وَالَّذِي نَفْس محَمَّدٍ بِيَدِهِ لَآنِيَته أَكْثَر مِنْ عَدَدِ نجومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِهَا فِي اللَّيْلَةِ الْمظْلِمَةِ الْمصْحِيَةِ، آنِيَة الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْهَا لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْهِ يَشْخَب فِيهِ مِيزَابَانِ مِنْ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْه لَمْ يَظْمَأْ،عَرْضه مِثْل طولِهِ مَا بَيْنَ عَمَّانَ إِلَى أَيْلَةَ مَاؤه أَشَدّ بَيَاضًا مِنْ الثَّلْجِ وَأَحْلَى مِنْ الْعَسَلِ)
ترجمہ : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! اس کے برتن ان ستاروں سے زیادہ ہیں جو تاریک اور بے ابر ( صاف ) رات میں ہوتے ہیں ، وہ جنت کے برتن ہیں ، جو شخص ان سے پئے گا اسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی ، اس میں جنت کے دو میزاب بہہ رہے ہو نگے ، جو شخص ایک بار اس پانی کو پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں ہو گا ، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے جو اتنی ہے جتنی (عمان ) اور (ایلہ) کے درمیان ہے ، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ([155])۔ ‘‘
میزان برحق ہے
روزِ قیامت وزن برحق ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(وَٱلۡوَزۡن يَوۡمَئِذٍ ٱلۡحَقّۚ فَمَن ثَقلَتۡ مَوَٰزِينه فَأوْلَٰٓئِكَ هم ٱلۡمفۡلِحونَ ٨ وَمَنۡ خَفَّتۡ مَوَٰزِينه فَأوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِروٓاْ أَنفسَهم بِمَا كَانواْ بَِٔايَٰتِنَا يَظۡلِمونَ ٩ )
ترجمہ : ’’اور اس روز وزن بھی برحق ہے ، پھر جس شخص کا پلا بھاری ہو گا ، سو ایسے لوگ کامیاب ہو نگے ، اور جس شخص کا پلا ہلکا ہو گا سو یہ وہ لوگ ہونگے جنھوں نے اپنا نقصان کر لیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے ([156]) ۔ ‘‘
نیز فرمایا : (وَنَضَع ٱلۡمَوَٰزِينَ ٱلۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِ فَلَا تظۡلَم نَفۡس شَيۡٔٗاۖ وَإِن كَانَ مِثۡقَالَ حَبَّة مِّنۡ خَرۡدَلٍ أَتَيۡنَا بِهَاۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَٰسِبِينَ )٤٧ ترجمہ : ’’قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھیں گے ، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ،اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو گا تو اسے ہم سامنے لائیں گے ، اور ہم حساب لینے کیلئے کافی ہیں ([157])۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ کر آپ سے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے ہیں ، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، اور میں انھیں گالیاں دیتا ہوں اور مارتا بھی ہوں ، تو ان کے متعلق میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا :(یحْسَب مَا خَانوْکَ وَعَصَوْکَ وَکَذَّبوْکَ، وَعِقَابکَ إِیَّاهمْ، فَإِنْ کَا نَ عِقَابکَ إِیَّاهمْ بِقَدْرِ ذنوْبِهِمْ کَانَ کَفَافًا ، لاَ لَکَ وَلاَ عَلَیْکَ، وَإِنْ کَا نَ عِقَابکَ دوْنَ ذنوْبِهِمْ کَانَ فضْلاً لَکَ، وَإِنْ کَانَ عِقَابکَ فَوْقَ ذنوْبِهِمْ اقْتصَّ لَهمْ مِنْکَ الْفَضَل )
ترجمہ : ’’ ان کی خیانت ، اور نافرمانی اور تجھے انھوں نے جو جھٹلایا ، اور جتنی تو نے انھیں سزا دی ، اس سب کا حساب کیا جائے گا ، اگر تیری سزا ان کی غلطیوں کے بقدر ہوئی تو معاملہ برابر ہو جائے گا ،نہ اس سے تمہیں کوئی فائدہ ہو گا اورنہ نقصان ، اور اگر تیری سزا ان کے غلطیوں کے مقابلے میں کم ہوئی تو تجھے ان پر فضیلت حاصل ہو گی ، اور اگر تیری سزا ان کی غلطیوں سے زیادہ نکلی تو تجھ سے زیادتی کابدلہ لیا جائے گا ‘‘
یہ شخص ایک طرف ہو کر رونے لگا ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تو نے کتاب اللہ میں یہ آیت نہیں پڑھی :
(وَنَضَع ٱلۡمَوَٰزِينَ ٱلۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِ فَلَا تظۡلَم نَفۡس شَيۡٔئاۖ٤٧)
ترجمہ:’’قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھیں گے ، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا ([158]) ‘‘
اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! میرے خیال میں میرے لئے اور ان کیلئے یہی بہتر ہے کہ میں انھیں چھوڑ دوں ، اورمیں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج کے بعد یہ سب آزاد ہیں ([159]) ۔ ‘‘
پل صراط پر گذر:
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’۔۔۔چنانچہ وہ محمد (ﷺ ) کے پاس آئیں گے ، اورآپ کو (شفاعت کی ) اجازت دی جائے گی ، پھر امانت اور رحم کو بھیجا جائے گا جو پل صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں گے ، پھر (لوگ پل صراط پر سے گذرنا شروع کریں گے ) ، چنانچہ سب سے پہلا شخص بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گذر جائے گا ۔میں ( ابو ہریرہ ) نے پوچھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ں ، کوئی چیز بجلی کی سی تیزی کے ساتھ بھی گذر سکتی ہے ؟
آپ نے فرمایا : کیا تم نے ( آسمان پر ) بجلی کو نہیں دیکھا ، کیسے وہ تیزی کے ساتھ جاتی ہے اور پلک جھپکتے ہی واپس آجاتی ہے ؟
پھر دوسرا آدمی ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گذر جائے گا۔
پھرتیسرا آدمی پرندے کی اڑان اور مردوں کے دوڑنے کی طرح گذر جائے گا ۔یہ سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے گذریں گے ، اور تمھارا نبی (ﷺ) پل صراط پر کھڑے ہو کر کہہ رہا ہو گا :
(یَا رَبِّ ! سَلِّمْ سَلِّمْ ) یعنی ’’اے میرے رب ! تو ہی سلامتی دے اور تو ہی محفوظ فرما ‘‘ یہاں تک کہ بندوں کے اعمال عاجز آ جائیں گے ، اور یہاں تک کہ ایک آدمی ایسا آئے گا جو گھسٹ گھسٹ کر ہی چلنے کے قابل ہو گا ۔ اور پل صراط کے کناروں پر مڑے ہوئے سرے والی لوہے کی سلاخیں لٹکی ہوئی ہو نگی جنھیں بعض لوگوں کو پکڑنے اور اچک لینے کا حکم دیا گیا ہو گا ، لہذا وہاں سے گذرنے والوں میں سے کچھ تو خراشیں وغیرہ لگنے کے بعد نجات پا کر اسے عبور کر جائیں گے اور کئی لوگوں کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گااور وہ جہنم میں گر جائیں گے۔‘‘
پھر حضرت ابو ہریرہ ؓنے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے ! جہنم کی گہرائی سترسال کی مسافت کے برابر ہے ([160])۔ ‘‘
چھٹا رکن:تقدیر پر ایمان لانا
تقدیر سے مراد: وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے سابق علم اور اپنی حکمت کی بنا پر کائنات کیلئے مقرر فرمائی ہے، اوراس کا مرجع اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے، بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایمان بالقدر در اصل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ربوبیت پر ایمان لانے کا ایک حصہ ہے ، اوریہ ایمان کے ان ارکان میں سے ایک ہے کہ جن کے بغیر ایمان مکمل اور درست نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (إِنَّا كلَّ شَيۡءٍ خَلَقۡنَٰه بِقَدَر ٤٩)
ترجمہ:’’بے شک ہم نے ہر چیز ایک تقدیر کے ساتھ پیدا کی ہے([161])۔ ‘‘
تقدیر کے مراتب
تقدیر کے چار مراتب ہیں ، اور ان چاروں پر ایمان لائے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا ،اور وہ یہ ہیں:
۱۔ اللہ کے ازلی (ہمیشہ رہنے والے) علم پر ایمان لانا جو کہ ہر چیز کو محیط ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (أَلَمۡ تَعۡلَمۡ أَنَّ ٱللَّهَ يَعۡلَم مَا فِي ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِۚ إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَٰبٍۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِير ٧٠)
ترجمہ : ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالی آسمان اورزمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے ، یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے([162])۔ ‘‘
نیز فرمایا : (وَعِندَه مَفَاتِح ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمهَآ إِلَّا هوَۚ وَيَعۡلَم مَا فِي ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِۚ وَمَا تَسۡقط مِن وَرَقَةٍ إِلَّايَعۡلَمهَا وَلَا حَبَّة فِي ظلمَٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡب وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَٰب مّبِين ٥٩ )
ترجمہ : ’’اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں ، اور انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، سمندر اور خشکی میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے ، اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو ، نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ، اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین (لوحِ محفوظ ) میں موجود ہے ([163])۔ ‘‘
۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی بناء پر جو تقدیریں لوحِ محفوظ میں لکھ دی ہیں ان پر ایمان لانا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مَّا فَرَّطۡنَا فِي ٱلۡكِتَٰبِ مِن شَيۡءۚ ثمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمۡ يحۡشَرونَ ) ٣٨ترجمہ : ’’ہم نے کتاب )لوحِ محفوظ( میں کوئی چیز نہیں چھوڑی([164])۔‘‘
نیز فرمایا : (وَمَا تَكون فِي شَأۡن وَمَا تَتۡلواْ مِنۡه مِن قرۡءَان وَلَا تَعۡمَلونَ مِنۡ عَمَلٍ إِلَّا كنَّا عَلَيۡكمۡ شهودًا إِذۡ تفِيضونَ فِيهِۚ وَمَا يَعۡزب عَن رَّبِّكَ مِن مِّثۡقَالِ ذَرَّة فِي ٱلۡأَرۡضِ وَلَا فِي ٱلسَّمَآءِ وَلَآ أَصۡغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكۡبَرَ إِلَّا فِي كِتَٰب مّبِينٍ )
ترجمہ : ’’ ( اے نبی ! ) تم جس حال میں بھی ہوتے ہو ، اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو ، اور ( اے لوگو ! ) جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو ، ہم ہر وقت تمہارے پاس موجود ہوتے ہیں جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو ، اور زمین وآسمان میں کوئی ذرہ برابر چیز بھی ایسی نہیں جو کہ آپ کے رب سے چھپی رہ سکے ، اور ذرہ سے بھی چھوٹی یا اس سے بڑی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو واضح کتاب ( لوحِ محفوظ ) میں نہ ہو([165]) ۔ ‘‘
اورحضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :( کَتَبَ اﷲ مَقَادِیْرَ الْخَلاَئقِ قَبْلَ أَنْ یَّخْلقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَةٍ )
ترجمہ : ’’اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تقدیروں کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تحریر فرمایا دیا تھا ([166]) ۔‘‘ اور حضرت عبادۃ بن الصامت ؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
(یَا بنَیَّ ! إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیْقَةِ الْإِیْمَانِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکنْ لِیخْطِئكَ ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکنْ لِیصِیْبَکَ) یعنی ’’اے میرے پیارے بیٹے ! تم ایمان کی حقیقت کا ذائقہ محسوس نہیں کر سکتے یہاں تک کہ اس بات پر یقین کر لو کہ جو چیز تمہارے مقدر میں لکھی گئی ہے وہ تم سے چوکنے والی نہیں ، اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں لکھی گئی وہ تمہیں ملنے والی نہیں ۔ ‘‘
اس کے بعد انہوں نے کہا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہ الْقَلَمَ ، فَقَالَ لَه: اکْتبْ ، قَالَ: رَبِّ ! وَمَا ذَا أَکْتب ؟ قَالَ:اکْتبْ مَقَادِیْرَ کلِّ شَیْءٍ حَتّٰی حَتَّى تَقومَ السَّاعَة)
ترجمہ : ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا ، پھر اس سے کہا : لکھو ، اس نے کہا : اے میرے رب ! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قیامت تک آنے والی ہر چیز کی تقدیروں کو لکھو ۔ ‘‘
بعد ازاں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓنے اپنے بیٹے سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :
( مَنْ مَّاتَ عَلٰی غَیْرِ هذَا فَلَیْسَ مِنِّیْ)
’’ جس شخص کی موت اس ( اعتقاد ) کے علاوہ کسی اور ( اعتقاد ) پر آئے گی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ([167]) ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جو کہ الصادق المصدوق ہیں ) نے ارشاد فرمایا :
ترجمہ : ’’بے شک تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( بصورتِ نطفہ ) جمع کی جاتی ہے ، پھر اتنا ہی عرصہ وہ خونِ بستہ کی شکل میں رہتا ہے ، پھر اتنی ہی مدت وہ گوشت کے لوتھڑے کے شکل میں رہتا ہے ، پھر ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے ، جو اس میں روح پھونکتا ہے ، اور اسے چار کلمات کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ، اس کا رزق ، اس کی موت ، اس کا عمل اور کیا یہ نیک بخت ہو گا یا بد بخت ! اس کے بعد نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :(فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْره إِنَّ أَحَدَكمْ لَيَعْمَل بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكون بَيْنَه وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِق عَلَيْهِ الْكِتَاب فَيَعْمَل بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخلهَا وَإِنَّ أَحَدَكمْ لَيَعْمَل بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكون بَيْنَه وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِق عَلَيْهِ الْكِتَاب فَيَعْمَل بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخلهَا)
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ! بے شک تم میں سے ایک شخص اہلِ جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، لیکن تقدیر اس پر سبقت لے جاتی ہے ، پھر وہ اہلِ جہنم کا کوئی عمل کرتا ہے ، اور وہ جہنم میں چلا جاتا ہے ، اور تم میں سے ایک شخص اہلِ جہنم کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، لیکن تقدیر اس پر سبقت لے جاتی ہے ، پھر وہ اہلِ جنت کا کوئی عمل کرتا ہے ، اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے ([168])۔ ‘‘
۳۔اس بات پر ایمان لانا کہ ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق ہی واقع ہوتی ہے ، اور اس کی قدرت ہر چیز کوشامل ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: (وَمَا تَشَآءونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّه رَبّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ٢٩) ترجمہ : ’’اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے([169])۔‘‘
اور حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے کہا:(مَا شَاءَ اﷲ وَشِئتَ)یعنی ’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں‘‘، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (أَجَعَلْتَنِیْ ﷲِ نِدًّا ؟ بَلْ مَا شَاءَ اﷲ وَحْدَہ ) یعنی ’’کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ہے بلکہ تم یوں کہو ( مَا شَاءَ اللّٰہ وَحْدَہ) یعنی اکیلا اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے وہی ہوتا ہے([170]) ۔‘‘
۴۔اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ٱللَّه خَٰلِق كلِّ شَيۡءۖ وَهوَ عَلَىٰ كلِّ شَيۡء وَكِيل ) ٦٢ترجمہ :’’اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے ([171])۔‘‘ نیز آپ ﷺ کا بھی ارشاد ہے:(خَلَقَ اﷲ کلَّ صَانِعٍ وَّصَنْعَتَه)
ترجمہ :’’اللہ تعالیٰ نے ہی ہر کاریگر اور اسکی کاریگری کو پیدا فرمایا ہے([172])۔‘‘
تقدیر کے بارے میں عقیدۂ سلف
تقدیر کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے، اوراس نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں مقرر فرمادی تھیں، ان کی موت کے اوقات، ان کا رزق کتنا ہو گا اور کہاں سے ملے گا ، اوروہ کونسے اعمال کریں گے ، اور یہ بھی لکھ دیا تھا کہ وہ خوش نصیبی اور بد بختی میں سے کس کو اختیار کریں گے، سو ہر چیز اس نے واضح طور پر اپنی کتاب ( لوح محفوظ ) میں ضبط کر رکھی ہے۔
لہذا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، اور جو کچھ ہوچکا ہے، نیز جو کچھ ہونے والا ہے ، اور جو نہیں ہوا اگر ہوتا تو کیسے ہوتا ، وہ سب کچھ جانتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے، نیز سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ بندوں کیلئے بھی مشیت اور قدرت ہے جس کے ذریعے وہ ‘ وہ اعمال سر انجام دیتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کو طاقت وہمت عطا کی ہے ، لیکن یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت وچاہت کے بغیر بندوں کی کوئی مشیت وچاہت نہیں۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے : (وَٱلَّذِينَ جَٰهَدواْ فِينَا لَنَهۡدِيَنَّهمۡ سبلَنَاۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَمَعَ ٱلۡمحۡسِنِينَ )٦٩
’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہوں کی راہنمائی ضرور کریں گے ([173])۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ بندوں سے کوشش اور جد وجہد مطلوب ہے ۔
افعال العباد
سلف صالحین رحمہم اللہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا ، اور ان کے افعال کا خالق ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( وَٱللَّه خَلَقَكمۡ وَمَا تَعۡمَلونَ ٩٦)
ترجمہ : ’’اور اللہ ہی نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا فرمایا ہے([174])۔‘‘یعنی کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مشیئتِ عامہ کے بغیر نہیں ہوتا ، ہاں البتہ ان افعال کے کرنے والے حقیقت میں بندے ہی ہیں، لہٰذا اگر کسی نے کسی واجب کام کو چھوڑا یا حرام کا ارتکاب کیا تو وہ یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہیں قائم کر سکتا کہ یہ تو میری قسمت میں لکھا ہوا تھا ،کیونکہ جب اس نے گناہ کیا تھا تو اس وقت اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گناہ میری تقدیر میں لکھا ہوا ہے ، تقدیر تو اللہ تعالیٰ کا راز ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور چونکہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے کیا اس لئے وہ تقدیر کو اپنے گناہ پر حجت نہیں بنا سکتا ، نیز یہ بات یاد رہے کہ مصائب پرتقدیر کو حجت بنانا تو جائز ہے، گناہوں پر حجت بنانا جائز نہیں ہے ، جیسا کہ نبی اکرم ﷺکا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کے ما بین ایک مباحثے کے بارے میں ارشاد ہے:(تَحَاجَّ آدم وَموْسیٰ، فَقَالَ موْسیٰ:أَنْتَ آدَم الَّذِیْ أَخْرَجَتْکَ خَطِیْئتكَ مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَه آدَم: أَنْتَ موْسیٰ الَّذِیْ اصْطَفَاکَ اﷲ بِرِسَالاَتِه وَبِکَلاَمِه ، ثمَّ تَلوْمنِیْ عَلیٰ أَمْرٍ قَدْ قدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أخْلَقَ ؟ فَحَجَّ آدَم موْسیٰ)
ترجمہ :’’آدم اور موسیٰ (علیہ السلام) کا آپس میں مباحثہ ہوا ، چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم(علیہ السلام )سے کہا : آپ وہی آدم ہیں جنہیں ان کی غلطی نے جنت سے نکال دیا تھا!
آدم (علیہ السلام ) نے کہا : آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کیلئے منتخب فرمایا ، اس کے باوجود بھی آپ مجھ کو ایک ایسے معاملے پر ملامت کر رہے ہیں جسے میری تخلیق سے قبل ہی میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا! چنانچہ آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام ) پر غالب آگئے([175])۔ ‘‘
اوربندوں کے افعال واعمال کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں ، ایک نظریہ یہ ہے کہ بندوں کے افعال بندوں کی مخلوق ہیں ، اور بندے ان کے خالق ہیں ، اور ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دخل نہیں ہے ، یہ نظریہ قدریہ کا ہے جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ، اس کے بالمقابل دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انسان مجبور محض ہے ، اور اس کی حیثیت ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے تنکے کی ہے کہ ہوا اسے جس طرف چاہے اڑا لے جائے ، اور اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تقدیر پہلے سے لکھ کر اسے مجبور محض بنا دیا ہے ….. اور یہ دونوں نظریات باطل ہیں ، اور علماء سلف رحمہم اللہ نے ان دونوں کے درمیان ایک موقف اپنایا ہے جو کہ مبنی برحق ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان نہ تو مکمل طور پر مختار کل ہے اور نہ ہی پورے طور پر مجبور محض ہے ، بایں معنی کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں انسان مجبور محض ہے ، مثلا انسان کی موت وحیات ، اس کے رنگ کا گورا ہونا یا کالا ہونا ، اس کا خوبصورت ہونا یا معذور ہونا ، یہ ایسی چیزیں ہیں جن میں اس کا کوئی بس نہیں چل سکتا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار اور ارادہ بھی عطا کیا ہے ، اور اسے متعدد صلاحیتوں سے نوازا ہے ، جن کی بنا پر وہ اچھے اور برے کی تمییز کر سکتا ہے ، اور اسی اختیار اور اس کی صلاحیتوں کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے اسے مکلف بنایا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : (وَهَدَيۡنَٰه ٱلنَّجۡدَيۡنِ ١٠ )
ترجمہ : ’’اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے ([176]) ۔ ‘‘
یعنی خیر وشر کے ، ایما ن و کفر کے اور سعادتمندی اور بدبختی کے دونوں راستے ہم نے اسے دکھا دئیے ہیں ، اور معاملہ اس پر چھوڑ دیا ہے ، ہاں اللہ تعالی ٰکو اس بات کا سابق علم حاصل ہے کہ وہ کونسی راہ اختیار کرے گا ، لیکن اس علم کو انسان کے اچھی یا بری راہ کے اپنانے میں کوئی دخل نہیں ، انسان اگر کوئی راہ اپناتا ہے تو اپنے اختیار سے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (لِمَن شَآءَ مِنكمۡ أَن يَسۡتَقِيمَ ٢٨)
ترجمہ : ’’یہ ( نصیحت ہے ) اس شخص کیلئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے ([177])۔ ‘‘
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے ، اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں ، اور ان کے ذریعے حق اور باطل کو واضح فرما دیا ، لہذا ان دلائل کی بناء پر انسان کو مجبور محض قرار دینا بالکل غلط ہے ۔
بندے پر تقدیر کے متعلق واجبات
بندے پر تقدیر کے بارے میں دو واجب ہیں:
۱۔ حسب مقدور واجبات وفرائض پر عمل کرے ، اور محرمات سے اجتناب کرے ، اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے ، اور اس سے دعا کرے کہ وہ اس کیلئے خیر وبھلائی کے اعمال میسر فرمادے ، صرف اسی پر توکل کرے ، اسی کی پناہ طلب کرے، اور بھلائی کے حصول اور برائی کے ترک کرنے پر اسی کا محتاج رہے۔
حضرت ابو ہریرۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:(اَلْمؤْمِن الْقَوِي خَيْرٌ وَأَحَب إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمؤْمِنِ الضَّعِيفِ،وَفِي كلٍّ خَيْرٌ،احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعكَ ،وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْت كَانَ كَذَا وَكَذَا،وَلٰکِنْ قلْ : قَدَّرَ اﷲ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَح عَمَلَ الشَّیْطَانِ)
ترجمہ : ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے ، اور دونوں میں خیر موجود ہے ، اور تم اس چیزکے حصول کیلئے کوشش کرو جو تمہارے لئے نفع بخش ہو ، اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر و اور عاجز نہ بنو، اوراگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ کر دیا، کیونکہ لفظ )لو( یعنی( اگر ) شیطانی عمل کو کھولتا ہے([178])۔ ‘‘
۲۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر میں لکھی ہوئی چیز پر جزع وفزع کا اظہارنہ کرے بلکہ صبر کا مظاہرہ کرے۔ اور وہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، جس پر اسے راضی ہی رہنا چاہئے اور اسے تسلیم کرنا چاہئے ۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : (عَجَبًا لِأَمْرِ الْمؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَه كلَّه خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمؤْمِنِ :إِنْ أَصَابَتْه سَرَّاء شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَه، وَإِنْ أَصَابَتْه ضَرَّاء صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَه)
ترجمہ : ’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے ، اور اس کا ہر معاملہ یقیناًاس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے ، اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ، اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے ، تو وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے ، اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے ، اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعثِ خیر بن جاتی ہے ([179]) ۔ ‘‘
اور اسے اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئیے کہ جو چیز اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے وہ اس سے چوکنے والی نہیں ، بلکہ اسے مل کر رہے گی ، اور جو چیز اللہ تعالی ٰنے اس کے مقدر میں نہیں لکھی ، وہ اسے ملنے والی نہیں ، چاہے وہ جتنی محنت کر لے اور چاہے جتنے جتن کر لے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:
(وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکنْ لِیصِیْبَکَ، وَمَا أَصَابَکَ لَمْ یَکنْ لِیخْطِئكَ )
ترجمہ : ’’اور اس بات پر بھی اچھی طرح سے یقین کر لو کہ جو چیز اللہ تعالیٰ تجھ سے روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی ، اور جو چیزاللہ تعالیٰ تجھے عطا کرنا چاہے اسے کوئی بھی تجھ سے روک نہیں سکتا ([180]) ۔‘‘
اور ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابی بن کعب ؓ کے پاس آیا اور ان سے عرض کی ، میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہات پیدا ہوگئے ہیں ، لہذا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ جس سے اللہ تعالی میرے وہ شبہات ختم کردے ، تو انہوں نے فرمایا :
’’اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو یہ اس کی طرف سے ان پر ظلم نہ ہوگا ، اوراگر وہ ان پر رحم فرمائے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے کہیں زیادہ ہو گی ، اور اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ ، اور اس بات پر یقین کر لو کہ جو چیز تمہاری مقدر میں لکھی ہوئی ہے وہ تم سے چوک نہیں سکتی ، اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں لکھی ہوئی ہے وہ تمہیں مل نہیں سکتی ، ( اور یاد رکھو ) اگر تمہاری موت اس کے علاوہ کسی اورعقیدہ پر آئی تو تم جہنم میں داخل ہو جاؤ گے ۔ ‘‘
ابن الدیلمی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکے پاس آیا تو انہوں نے بھی مجھے یہی بات کہی ، اور پھر میں حضرت حذیفۃ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا ، بعد ازاں میں حضرت زید بن ثابت ؓکے پاس آیا تو انہوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی اسی طرح کی حدیث سنائی ([181]) ۔
لہذا تقدیر پر راضی ہونا لازمی امر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ ہر قسم کی بھلائی، عدل اور حکمت سے پر ہے، اورجو شخص اس پر مطمئن ہوجائے وہ حیرت، تردد اور پریشانی سے محفوظ ہوجاتا ہے ،اور اس کی زندگی میں بے قراری اور اضطراب کا خاتمہ ہوجاتا ہے،اور پھر وہ کسی چیز کے چھن جانے سے غمزدہ نہیں ہوتا ، اور نہ ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ رہتا ہے ، بلکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار اور آسودہ حال ہوتا ہے ،اور جس شخص کو اس بات پر یقین کامل ہو کہ اس کی زندگی محدود ہے ، اور اس کا رزق متعین اور معدود ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ بزدلی اس کی عمر میں اور بخیلی اس کے رزق میں کبھی اضافے کا باعث نہ بنے گی، ہر چیز لکھی ہوئی ہے، لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ اسے جو مصیبت پہنچے وہ اس پر صبر کرے، اور وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرے، اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجائے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (مَآ أَصَابَ مِن مّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ وَمَن يؤۡمِنۢ بِٱللَّهِ يَهۡدِ قَلۡبَهۚ وَٱللَّه بِكلِّ شَيۡءٍ عَلِيم ١١)
ترجمہ: ’’کوئی مصیبت اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، اورجو شخص اللہ پر ایمان لائے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے([182])۔ ‘‘
نیز فرمایا: (فَٱصۡبِرۡ إِنَّ وَعۡدَ ٱللَّهِ حَقّ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۢبِكَ ٥٥ )
ترجمہ : ’’پس اے نبی! آپ صبر کیجئے ، بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے ، نیز آپ اپنے گناہ کی معافی مانگتے رہئے ([183])۔‘‘
مسئلہ قدر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے
تقدیر اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں ایک راز ہے ، جسے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، جیسے اللہ تعالیٰ کا کسی کو گمراہ کرنا، کسی کو ہدایت دینا، کسی کو مارنا، کسی کو زندہ کرنا، کسی کو محروم کرنا اور کسی کو نواز نا وغیرہ ہے…….ان تمام امور سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے ۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:(إِذََا ذکِرَ الْقَدْر فَأَمْسِکوْا)یعنی ’’جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو (بحث کرنے سے ) رک جاؤ ([184])۔‘
تقدیر کو حجّت بناتے ہوئے عمل کو چھوڑنا جائز نہیں
جو کچھ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کو چھوڑ دینا جائز نہیں، کیونکہ کسی کے پاس کوئی علم یقینی تو نہیں ہے کہ وہ جنّتی ہے یا جہنمی، اگراس کے پاس کچھ علم ہوتا تو ہم اسے نہ کسی کام کا حکم دیتے اور نہ کسی کام سے منع کرتے. اور اگر عمل کو چھوڑنا جائز ہوتا تو کبھی کسی قوم پر عذابِ الٰہی نازل نہ ہوتا ، اور نہ کسی کافر ، اور فاسق و فاجر کا مؤاخذہ ہوتا۔
اورحضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے ، اتنے میں نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے ، چنانچہ ہم سب آپ ﷺ کے ارد گرد بیٹھ گئے،آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ سر جھکائے ہوئے زمین پر کرید رہے تھے (جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں ) ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : (مَا مِنْکمْ مِّنْ أَحَدٍ،مَا مِنْ نَّفْسٍ مَنْفوْسَةٍ إِلاَّ وَقَدْ کَتَبَ اللّٰہ مَکَانَهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ، وَإِلاَّ وَقَدْ کتِبَتْ شَقِیَّةً أَوْ سَعِیْدَةً)
ترجمہ : ’’تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے ، جنت میں یا دوزخ میں ، اور یہ بھی لکھا جا چکا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یا بد بخت ‘‘ ؟
یہ سن کر ایک شخص کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اپنی قسمت کے لکھے پر بھروسہ کرتے ہوئے عمل کرنا چھوڑ نہ دیں ؟ کیونکہ جو نیک بختوں میں لکھا گیا ہے وہ بالآخر نیک بختوں میں ہی شامل ہو گا ، اور جو بد بخت لکھا گیا ہے وہ بالآخر بد بختوں میں ہی شامل ہو گا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(اِعْمَلوْا فَکلٌّ میَسَّرٌ لِمَا خلِقَ لَه ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَۃ فَییَسَّرلِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَة، وَمَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَۃ فَییَسَّرلِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَۃ) ثمَّ قَرَأَ :( فَأَمَّا مَنْ أَعْطیٰ وَاتَّقیٰ * وَصَدَّقَ بِالْحسْنیٰ * فَسَنیَسِّرہ لِلْیسْریٰ* وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنیٰ * وَکَذَّبَ بِالْحسْنیٰ * فَسَنیَسِّرہ لِلْعسْریٰ) ترجمہ :’’تم عمل کرو، کیونکہ ہر ایک کو جس کام کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ اس کیلئے آسان کر دیا گیاہے ، اورجو شخص سعادتمندوں میں لکھا گیا ہے اسے نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے ، اور جو شخص بدبختوں میں لکھا گیا ہے اسے ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے ، پھر آپ ﷺنے یہ آیات تلاوت فرمائیں جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’پھر جس نے ( اللہ کی راہ میں مال) دیا ، اور پرہیز گاری اختیار کی ، اور اچھی باتوں کی تصدیق کی ،تو ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی توفیق دیں گے ، اورجس نے بخل کیا ، اور بے پرواہی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا ، تو ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے ([185])۔ ‘‘
اسباب کا استعمال
اسباب کو اختیار کرنا تقدیر اور توکل کے منافی نہیں بلکہ یہ اسی کا ایک جزو ہے۔اگر کسی انسان پر کوئی مصیبت یا آزماش آجائے تو اسے کہنا چاہئے (قَدَّرَ اﷲ وَمَا شَاءَ فَعَلَ)’’اللہ تعالیٰ ہی نے تقدیر بنائی ہے اور وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے‘‘۔ اور اس کے واقع ہونے سے قبل انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ مشروع اسباب کو اختیار کرے، کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی ان اسباب ووسائل کو اختیار کیا جوکہ ان کو ان کے دشمنوں سے تحفظ دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور وحی کی تائید بھی حاصل تھی، رسول اللہ ﷺ جو سید المتوکلین تھے، اورجن کا اپنے رب پر قوی توکل تھا ، وہ بھی اسباب کو اختیار کرتے تھے۔
اورفرمان الٰہی ہے: (وَأَعِدّواْ لَهم مَّا ٱسۡتَطَعۡتم مِّن قوَّة وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَيۡلِ ترۡهِبونَ بِهِۦ عَدوَّ ٱللَّهِ وَعَدوَّكمۡ ٦٠ )
’’تم ان کے مقابلہ کیلئے حسبِ استطاعت قوت اور فوجی گھوڑوں کو تیارکرو ، تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو ([186]) ۔‘‘
نیز فرمایا: (هوَ ٱلَّذِي جَعَلَ لَكم ٱلۡأَرۡضَ ذَلولا فَٱمۡشواْ فِي مَنَاكِبِهَا وَكلواْ مِن رِّزۡقِهِۦۖ وَإِلَيۡهِ ٱلنّشور ١٥ )
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مطیع وپست کر دیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ اور اسی کی طرف تمہیں زندہ ہو کر کر اٹھنا ہے ([187])۔‘‘
اور نبی کریم ﷺ کا ایک ارشاد گرامی ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ، اور یہاں دوبارہ اس کی یاددہانی کراتے ہیں :
(اَلْمؤْمِن الْقَوِیّ خَیْرٌ وَأَحَبّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمؤْمِنِ الضَّعِیْفِ، وَفِیْ کلٍّ خَیْرٌ، اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعکَ ، وَاسْتَعِنْ بِاﷲِ وَلاَ تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْءٌ فَلاَ تَقلْ لَوْ أَنِّیْ فَعَلْت کَذَا لَکَانَ کَذَا ، وَلٰکِنْ قلْ:قَدَّرَ اﷲ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَح عَمَلَ الشَّیْطَانِ)
ترجمہ : ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہے ، اور دونوں میں خیر موجود ہے ، اور تم اس چیزکے حصول کیلئے کوشش کرو جو تمہارے لئے نفع بخش ہو ، اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر و اور عاجز نہ بنو، اوراگرتمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسے کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ کر دیا، کیونکہ لفظ (لَو) یعنی( اگر ) شیطانی عمل کو کھولتا ہے([188])۔‘‘
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا اورحقیقی ایمان نصیب فرمائے ، اور ایمان پر ہی ہمارا خاتمہ فرمائے ۔ آمین